جب بغاوت کے مقدمے میں نامزد ’ملزم‘ خود تھانے پہنچ گئے

سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور عطا تارڑ شاہدرہ پولیس سٹیشن پہنچے اور تھانے دار سے پوچھا کہ ’مقدمہ کیوں درج کیا اور کیا اسے واپس لیں گے یا نہیں۔‘

یکم اکتوبر کو ایک شہری بدر رشید کی جانب سے لاہور میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت 40 لیگی رہنماؤں کے خلاف درج کروائے گئے بغاوت کے مقدمے کی معلومات حاصل کرنے کے لیے لیگی رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور عطا اللہ تارڑ بدھ کو خود شاہدرہ پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔

مسلم لیگ ن کی طرف سے جاری کی گئی ایک ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ محمد زبیر نے ایس ایچ او سے گفتگو میں کہا: ’چند روز پہلے یہاں ایک مقدمہ درج کیا گیا جس میں مسلم لیگ ن کے 40 سرکردہ رہنماؤں، جن میں دو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے علاوہ کشمیر کے وزیر اعظم کے نام شامل ہیں۔ یہ مقدمہ سنجیدہ نوعیت کا ہے کیونکہ غداری کا مقدمہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے تو رات کو نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ میں بھی غدار بن گیا، میں تو ماتھے پر حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ سجائے پھر رہا تھا۔‘

محمد زبیر کے مطابق: ’یہ دوسرا ایسا واقعہ ہے کیونکہ اگست میں مریم نواز نیب کے دفتر آئیں تو اس وقت ایک تھانے میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا، اس میں بھی ہم سب کا نام تھا۔ اب جس تعداد میں مقدمے بن رہے ہیں ہمیں اس پر تشویش ہے۔‘

’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمہ آپ کی تو مجبوری ہوگی لیکن پھر بھی آپ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ یہ مقدمہ آپ بنا بھی سکتے تھے یا نہیں، کیونکہ اس سے پاکستان میں ہمارے تاثر خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور ہمارا تعلق بھارت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی۔‘

انہوں نے ایس ایچ او شاہدرہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’وہ مقدمہ واپس لے رہے ہیں یا نہیں، مگر اس سے پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نے مقدمہ رجسٹر ہی کیوں کیا؟‘ جواب میں ایس ایچ او شاہدرہ تھانہ زاہد نے کہا: ’میں نے مقدمہ درج ہی نہیں کیا، میری تو یہاں دو روز قبل پوسٹنگ ہوئی ہے۔‘

اس پر محمد زبیر نے پوچھا کہ ’پچھلے ایس ایچ او کو کیوں فارغ کیا گیا؟‘ جواب میں ایس ایچ او زاہد نے کہا: ’ہم ایک ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں، ہماری کوئی ذاتیات نہیں، ہمارے لیے ایک عام شہری بھی اتنا ہی محترم ہے جتنے آپ۔‘

ایس ایچ او نے مزید کہا: ’اس کیس میں ایک سائل نے نجی حیثیت میں شکایت درج کروائی، اس میں پولیس مدعی نہیں۔ ایک شخص نے درخواست دی اور ایف آئی آر ہو گئی۔ اب قانونی تقاضوں کو پورا کیا جارہا ہے، میرٹ کے مطابق تفتیش ہوگی۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہماری آپ سے یا نواز شریف سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں۔ ہم عوام کے خادم ہیں، ہمارا اس ایف آئی آر میں کوئی عمل دخل نہیں۔‘

لیگی رہنما محمد زبیر نے یہ بھی کہا کہ یہ پہلا ایسا مقدمہ ہے جس میں ملزمان خود تھانے آئے ہیں۔ ’میں گورنر سندھ رہ چکا ہوں، یہ مقدمہ حکومت کی آشیر باد کے بغیر درج نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کو مقدمات درج کروانے کا شوق ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’سابق جرنیلوں پر مقدمہ درج کرکے ان کی حب الوطنی پر حملہ کیا گیا، ہم اس مقدمے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘

لیگی رہنما عطا تارڑ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’آج ہم شاہدرہ تھانے گئے تھے کہ یا تو ہمیں گرفتار کریں یا ہمیں تفتیش سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کہاں تک پہنچی ہے؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’ایک تو یہ ایف آئی آر ممکن نہیں ہے کہ بغیر کسی بڑے کی اجازت کے یہ درج ہو گئی ہو۔ ایس ایچ او نے کسی ایس پی کو ایس ایس پی، ڈی آئی جی یا سی سی پی او کو بتایا ہوگا اور سی سی پی او نے آگے کسی نہ کسی وزیر یا سیکرٹری کو بتایا ہوگا۔  ہم یہ کس طرح مان لیں کہ یہ ایف آئی آر سیاسی مداخلت کے بغیر ہوگئی؟‘

عطا تارڑ نے مزید کہا کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کاز پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا۔  ’کیا ایس ایچ او شاہدرہ اتنے طاقتور ہیں کہ انہوں نے کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم، دو سابق وزرائے اعظم پاکستان، تین سابق لیفٹنینٹ جنرلز اور سابق وزیر دفاع کے خلاف ایف آئی بغیر کسی سے پوچھے ہی درج کرلی۔ یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا نقطہ نظر واضح ہے کہ یہ ایف آئی آر حکومت کی ایما پر درج کی گئی ہے، تحریک انصاف نے اس میں اپنا پورا کردار ادا کیا ہے، ان کی اجازت کے بغیر یہ ایف آئی آر نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن جب تنقید ہوئی تو یہ لوگ اس سے پیچھے ہٹ گئے اور اس کا مقصد پی ڈی ایم کی تحریک کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے، یا یہ کہ آنے  والے وقت میں جب جلسے جلوس ہوں تو یہ اس ایف آر کے تحت لوگوں کو پکڑ کر اندر کر دیں۔‘

واضح رہے کہ نواز شریف سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کے خلاف درج کروائی گئی ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے مقتدر اداروں کو بدنام کرنے کے لیے اشتعال انگیز تقاریر کیں اور تقاریر میں دشمن ملک بھارت کی ڈکلئیر پالیسی کی تائید کی۔‘ اس مقدمے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست