امن مذاکرات کی بنیاد قران و سنت ہو یا امریکی معاہدہ؟ طالبان منقسم

قطر میں افغان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا تسلسل ہیں تاہم افغان وفد کے مطابق مذاکرات کی بنیاد قرآن کے سوا کچھ نہیں ہونی چاہیے۔

12 ستمبر کو  بین الافغان مذاکرات کے آغاز   پر طالبان کے شریک بانی ملا برادار خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی)

قطر میں ہونے والے افغان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

ان مذاکرات کے آغاز کو ایک مہینہ اور ایک دن گزر گیا ہے لیکن طالبان اور حکومت کے مذاکرات کار ایک نقطے پر اٹکے ہوئے ہیں: امن مذاکرات کی بنیاد کیا ہو گی؟

افغان امن کے اس عمل میں امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی تمام کوششوں سمیت سات سال سے طالبان کے میزبان قطری سفارتی اہلکار بھی ناکام رہے ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ افغان امن مذاکرات کس بنیاد پر کیے جائیں؟

طالبان کے مطابق یہ مذاکرات فروری میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے طالبان امن معاہدے کا تسلسل ہیں اور اس بین المذاہب بات چیت کا دوسرا باب ہیں جو تقریباً دو سال قبل شروع ہوا تھا اور دوحہ معاہدے کی بنیاد بنا۔

لیکن دوسری طرف اسلامی جمہوریہ افغانستان کے نمائندوں کا ماننا ہے کہ امن مذاکرات کی بنیاد قرآن کے سوا کچھ نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ دونوں فریق مسلمان اور افغان ہیں۔

دوحہ امن مذاکرات سے متعلق ذرائع نے بتایا کہ افغان فریق کی حجت نے طالبان کے مذاکرات کاروں کو کمزور پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق: 'افغان حکومت کے مدمقابل طالبان کی مذاکراتی ٹیم انتہائی کمزور ہے۔ اب تک کی تمام ملاقاتوں میں طالبان نے صرف پرتشدد باتیں کی ہیں اور کوئی خاص منطقی حل پیش نہیں کر سکے۔'

'دوسری جانب افغان حکومت کی ٹیم نے مذاکرات کی بنیاد کے طور پر قرآن وسنت کی بات کرکے طالبان کو ایک قسم کا چیلنج دیا ہے کیونکہ طالبان مصر ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو ہی مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے۔ اس حکمت عملی نے طالبان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔'

ذرائع کے مطابق: 'اگر افغانستان اور پاکستان میں موجود طالبان جنگجو یہ جان لیں کہ مذاکرات میں شامل طالبان قرآن اور سنت کو بنیاد کے طور پر قبول کرنے میں متامل ہیں اور امریکی بات چیت کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس ٹیم کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھنے سمیت طالبان جنگجوؤں میں خانہ جنگی تک کے امکانات ہیں۔'

ایک اور پہلو جو مذاکرات کے تعطل کا باعث بن سکتا ہے وہ ہے افغانستان میں بڑھتا ہوا تشدد۔ افغان حکام دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر تشدد میں کمی نہ آئی تو پھر طالبان کے ساتھ بات چیت کے فیصلے سے متعلق نظرثانی ہوسکتی ہے۔ 

بین الاقوامی سطح پر حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف طالبان کی 19 سالہ خونریز جدوجہد 'خالص اسلام کے نفاذ اور غیر ملکی افواج کی واپسی' کی خاطر تھی۔ طالبان کی تحریک نے اسلام کے نام پر ہی سر اٹھایا تھا لیکن اب سیاست کی دنیا انہیں ایک نئے دوراہے پر ڈال رہی ہے۔

افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں کم از کم تین ممتاز عالم دین اور ماہر فلسفہ ایسے ہیں جو اسلامی فقہ کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی اور دیگر معاصر علوم پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان حکومت کی مذاکرات کار ٹیم  اگرچہ مختلف گروہوں، نسلوں، مذاہب اور سیاسی شخصیات پر مشتمل ہے لیکن تاحال وہ 'مذہب کی شناخت یا مذاکرات کی بنیاد' جیسے متنازع مباحثوں کے مابین اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ وہ قیام امن، آتشیں اسلحے پر پابندی اور قتل و غارت کے خاتمے جیسے عزائم لے کر مذاکرات پر گئے تھے۔

دوسری طرف انڈپینڈنٹ فارسی کو موصول شدہ ایک دستاویز کے مطابق طالبان کی قیادت میں اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔

 

انسٹی ٹیوٹ برائے سیکیورٹی سٹڈیز کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق: 'طالبان کے قطر دفتر میں تنازعات  ڈرامائی طور پر زیادہ ہوئے ہیں۔ یہ تنازعات ابتدا میں ملا برادر اور شیر محمد عباس ستانکزئی کے مابین تھے لیکن اب قطر دفتر اور طالبان کا وفد تین گروہوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

پہلے گروپ کی قیادت ملا برادر کرتے ہیں اور ملا خیر اللہ خیرخواہ اور ملا فاضل مظلوم جیسے لوگ ان کے قریب ہیں۔ دوسرا گروپ عباس ستانکزئی کے ساتھ ہم آہنگی میں ہے۔ مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیخ عبد الحکیم  اور ملا عمر کے بھائی بھی عباس ستانکزئی کی حمایت کرتے ہیں۔ ستانکزئی امن عمل کو ناکام بنانے اور مذاکرات کو قطر سے کسی دوسرے عرب ملک، ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'

یہ رپورٹ دوحہ امن عمل پر قریب سے نگاہ رکھنے والے مبصرین کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ ان دونوں مبصرین کے مطابق یہ تنازعات مذاکرات کے آغاز اور دوحہ میں ملا برادر کی موجودگی سے شروع ہوئے تھے جو اب سنگین تر ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق فریقین، ملا برادر اور ستانکزئی ایک دوسرے پر بدعنوانی اور مالی استحصال کا الزام بھی عائد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو الگ تھلگ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ طالبان کے اندر بھی ملا برادر اور شیخ حکیم  ایک دوسرے پر الزامات عائد کر کے امن مذاکرات میں اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طالبان کی اندرونی تقسیم میں تیسرا گروہ وہ ہے جو قطری آفس سے بے دخل کیا گیا تھا لیکن وہ پاکستان واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔

طالبان نے بار بار ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک ہی قیادت کی پیروی کرتے ہیں لیکن امن مذاکرات میں تاخیر پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

پچھلے دو روز کے دوران حکومت اور طالبان کے رابطہ کاروں نے ملاقاتیں کی ہیں اور امید ظاہر کی ہے کہ جب تک اگلا قدم نہیں اٹھایا جاتا، امن مذاکرات جاری رہیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا