کیا اسد شفیق کو ڈراپ کرنا درست فیصلہ ہے؟

اسد شفیق کو تین ٹیسٹ کی کارکردگی پر ڈراپ کرنے پر اگر ٹیم سیلیکشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو غلط نہیں ہیں کیونکہ منتخب کیے گئے کھلاڑیوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسد شفیق کا خلا پر کر سکے۔

اسد شفیق اگر تین ٹیسٹ میں ناکام ہوئے تو اس پہلے 14 ٹیسٹ میں ان کی سات نصف سنچریاں اور ایک سنچری  شامل ہے (اے ایف پی)

دسمبر 2016 میں برسبین کے گابا گراؤنڈ پر پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پہلے ٹیسٹ کا چوتھا دن تھا جب آسٹریلیا نے پاکستان کو دوسری اننگز میں 490 رنز کا ٹارگٹ یہ سوچ کر دیا کہ پاکستان کا آسٹریلیا میں بیٹنگ ریکارڈ بہت خراب ہے اور آج بھی یہ ٹیم دو سو سے بھی پہلے ہی سمٹ جائے گی کیونکہ پاکستان ٹیم چھ سال قبل 117 کا آسان ہدف بھی نہیں عبور کر پائی تھی۔

چہرے پر اطمینان سجائے کینگرو کپتان سٹیو سمتھ چمکتی ہوئی آنکھوں سے پاکستان کی وکٹیں گرتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ میچ ان کی توقع سے بھی پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔

کھیل کا انداز بھی یہی تھا 173 رنز پر پاکستان کے پانچ مستند بلے باز پویلین واپس پہنچ چکے تھے ان میں یونس خان، بابر اعظم،  اور مصباح الحق بھی شامل تھے۔

کریز پر اب اسد شفیق اور سرفراز احمد تھے۔

ایسا لگتا تھا کہ یہ بھی جلد لوٹ جائیں گے لیکن وقت بدلنے لگا اور کھیل کا نقشہ پلٹنے لگا۔

کراچی کی تنگ و  تاریک گلیوں سے ٹیپ بال سے کرکٹ شروع کرنے والا منحنی سا نوجوان اسد شفیق آسٹریلین بولرز کو بہت اعتماد سےکھیلنے لگا تھا۔

ہیزل ووڈ کو فائن لیگ پر چھکے سے ابتدا کرنے والا اسد شفیق آج کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا پہلے سرفراز کے ساتھ 40 رنز کی  پارٹنر شپ کی اور پھر ٹیل اینڈرز کے ساتھ جیت کی جنگ شروع کر دی۔

محمد عامر کے ساتھ 92 رنز کی رفاقت اور پھر وہاب ریاض کے ساتھ 66 رنز کی شراکت نے آسٹریلین ٹیم کو ہلا کر رکھ دیا۔

اس دوران پاکستان کے رنز بڑھتے گئے اور  جیت کی جانب سفر شروع ہو گیا۔ بیٹنگ کا سارا بوجھ اسد شفیق نے اٹھا رکھا تھا۔

اپنی سنچری اس بولنگ اٹیک کے سامنے مکمل کی جس سے ہر ٹیم لرزتی تھی کیونکہ برسبین کی وکٹ دنیا کی سب سے تیز رفتار وکٹ ہے۔

میچ جب پانچویں دن دوبارہ شروع ہوا تو پاکستان کو جیت کے لیے صرف 70 رنز درکار تھے۔

شکست کے خوف نے سٹیو سمتھ کے چہرے پر ہوائیاں اڑا دی تھیں، مایوسی کے عالم میں انہوں نے پہلے اوور سے ہی انتہائی دفاعی فیلڈ لے لی تاکہ رنز روکے جاسکیں مگر اسد شفیق کا بلا رک نہیں رہا تھا۔  

میچ تیزی سے پاکستان کی جیت میں بدل رہا تھا بس 40 رنز رہ گئے تھے اور پھر تاریخ رقم ہوجاتی۔

مگر پھر۔۔۔ قسمت سے ہار گیا۔۔۔ جب سٹارک کے ایک باؤنسر سے وہ بچ نہ سکا جو مستقل باڈی لائن گیند کر رہے تھے اور اسد 137 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔

جب اسد شفیق آؤٹ ہو کر جارہے تھے تو پورا سٹیڈیم انہیں کھڑے ہوکر خراج تحسین پیش کر رہا تھا ہر ایک کہہ رہا تھا پاکستان ہار کر بھی جیت گیا ہے۔

آسٹریلین کمنٹیٹر آین ہیلی کہتے ہیں ’یہ میں نے اپنی زندگی کی سب بہترین فائٹنگ اننگز دیکھی ہے۔‘

اس سے پہلے بھی اسد شفیق جنوبی افریقہ اور انگلینڈ میں مشکل حالات میں سنچریاں کرچکے تھے۔ بھارت کے سنجے منجریکر کہتے ہیں اسد کی تینوں سنچریاں تاریخی اننگز ہیں۔

وہی اسد شفیق 72 مسلسل ٹیسٹ کھیل کر بھی آج محض تین ٹیسٹ میں خراب کارکردگی کی پاداش میں نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے ٹیم سے نکال دیے گئے ہیں۔ 

اسد شفیق کو ڈراپ کرتے ہوئے گذشتہ انگلینڈ کے دورے پر سکور نہ کرنا بتایا گیا ہے حالانکہ اس سیریز میں جہاں اسد شفیق سے رنز نہیں بن سکے وہاں دوسرے بلے باز بھی کوئی بڑے کارنامے انجام نہیں دے سکے تھے۔

انگلینڈ کے جو روٹ جو دنیا کے پانچ بہترین بلے بازوں میں ہیں وہ بھی پوری سیریز میں صرف 94 رنز بنا سکے تھے۔

اگر یہی پیمانہ ہے تو مصباح الحق نے کئی بیرون ملک سیریز میں تین ٹیسٹ میں 100 رنز بھی نہیں کیے تھے تو وہ بھی ڈراپ ہو جاتے!!!

کیا اسد شفیق کی جگہ ان سے بہتر بلے باز کو لیا گیا ہے؟

اگر نیوزی لینڈ کے دورے پر جانے والی ٹیم دیکھی جائے تو چند ایسے کھلاڑی ہیں جن کو پرفارمنس کے بغیر شامل کیا گیا ہے۔ ان میں حارث سہیل، امام الحق، فخر زمان، دانش عزیز، عبد اللہ شفیق شامل ہیں۔

ٹیم کے سیلیکٹر مصباح الحق نے سیلیکشن کا پیمانہ 12 اکتوبر تک کی کارکردگی مقرر کیا ہے تو اس پیمانے پر تو مزکورہ کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی پورا نہیں اترتا تو پھر کس بنیاد پر وہ منتخب ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسد شفیق اگر تین ٹیسٹ میں ناکام ہوئے تو اس پہلے 14 ٹیسٹ میں ان کی سات نصف سنچریاں اور ایک سنچری  شامل ہے۔

اسد شفیق پاکستان کے واحد بلے باز ہیں جنھوں نے مسلسل 72 ٹیسٹ کھیلے ہیں جس سے ان کی مستقل مزاجی اور کارکردگی عیاں ہے لیکن چونکہ وہ ٹی ٹوئنٹی ٹائپ کھلاڑی نہیں ہیں اس لیے وہ ہمیشہ ریڈار پر رہتے ہیں ورنہ خراب کارکردگی کی بنیاد پر سب سے پہلا نام امام الحق کا ہے جنھیں ڈراپ کیا جائے ۔

دنیا میں بہت سے بڑے بلے باز ہیں جو ایک نہیں بلکہ تین چار سیریز خراب کھیل جاتے ہیں لیکن ڈراپ نہیں کیے جاتے کیونکہ وہ تجربہ اور مہارت کی بنیاد پر کبھی بھی فارم میں واپس آجاتے ہیں۔

وریندر سہواگ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

سابق کپتان راشد لطیف نے اسد شفیق کو ڈراپ کرنے کے فیصلے کو ’سیاسی فیصلہ‘ قرار دیا ہے اور کہا کہ شاید اس کے ذریعہ کو چاور بورڈ نے تمام کھلاڑیوں کو سخت پیغام دے دیا ہے۔

سابق فاسٹ بولر سکندر بخت نے اسد شفیق کو ڈراپ کرنے پر سخت تنقید کی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ پوری ٹیم ہی غلط منتخب ہوئی ہے کسی کو نہیں پتہ کہ وہ کہاں کھیلے گا۔

ٹی وی اینکر نعمان نیاز تو کہتے ہیں کہ اسد کو ٹیم سے کسی کی خواہش پر نکالا گیا ہے جس نے حارث سہیل کو مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود اسد شفیق کی جگہ شامل کرایا۔

نوجوانوں کو زیادہ چانس دینے کی بات کی گئی مگر عمر رسیدہ محمد حفیظ اور سہیل خان کو لیا گیا ہے مگر ڈومیسٹک کے کامیاب کھلاڑیوں سعود شکیل، زاہد محمود اور نعمان علی کو نہیں لیا گیا ہے ۔

اپنے کیرئیر میں متعدد بار میچ بچانے والی اننگز کھیلنے والے اسد شفیق کو تین ٹیسٹ کی کارکردگی پر ڈراپ کرنے پر اگر ٹیم سیلیکشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو غلط نہیں ہیں کیونکہ منتخب کیے گئے کھلاڑیوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اسد شفیق کا خلا پر کر سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ