خلیفہ ہارون الرشید اپنی محبوب بیوی ملکہ زبیدہ کے ہمراہ محل کی راہداری میں ٹہل رہے تھے۔ ان کی خاص کنیز بھاگتی ہوئی آئی اور کہا: ’حضور ذرا محل کی بالکونی میں تو تشریف لے آئیں۔‘
بادشاہ ہارون الرشید نے پوچھا: ’کیوں؟ وہاں ایسا خاص کیا ہے؟‘
دانا کنیز نے جواب دیا کہ ’حضور آپ تو جسموں کے بادشاہ ہیں، وہاں سے دلوں کا بادشاہ بھی دیکھ آئیں۔‘
خلیفہ نے ملکہ کے ساتھ بالکونی کا رخ کیا تو دیکھا کہ پورا بغداد امڈ آیا ہے اور تاحد نگاہ سر ہی سر ہیں۔
خلیفہ نے سوالیہ انداز سے کنیز کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ ’کیا ہوا اور یہ لوگ کیوں نکلے ہیں؟‘
تو کنیز نے جواب دیا کہ ’مشہور مفسر قرآن اور عالم علامہ ابن جریر شہر میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ لوگ ان کے استقبال کو نکل آئے ہیں۔‘
زمانوں اور فاصلوں کے باوجود بھی بغداد اور پشاور میں بس یہی فرق دیکھنے میں آیا کہ وہاں لوگ دلوں کے حکمران علامہ ابن جریر کے استقبال کو نکل آئے تھے اور یہاں دلوں کے حکمران جسٹس وقار احمد سیٹھ کو رخصت کرنے آئے تھے ۔
گئے دنوں میں عمران خان پر مر مٹنے والے بزرگ دوست باچا جی نے بمشکل گاڑی پارک کی اور ہم اترے تو ابر آلود سہ پہر کو ایک غمناک اداسی نے پورے شہر بلکہ ملک کو لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
میں نے دائیں جانب دیکھا تو عام لوگ اور وکلا حضرات ایک سمت کو امڈتے چلے جا رہے تھے۔ میں تجسس کے ساتھ آگے بڑھا اور دیکھا تو گہرے نیلے رنگ کی پتلون اور گرے کوٹ میں ملبوس خوش شکل اور خوش مزاج جسٹس فائز عیسٰی لوگوں کے نرغے میں مسکراتے لیکن خاموش کھڑے دکھائی دیئے۔
میں نے دل ہی دل میں کہا کہ ہوا غضب کی ہی سہی لیکن جس دیئے میں جان ہوتی ہے، وہی دیا ہی رہ جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ممتاز قانون دان فضل الہٰی ایڈووکیٹ کو اپنے صحافتی تجسس کے ساتھ میں نے جا لیا۔ وہ جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم کے کلاس فیلو بھی رہے اور پھر ایک طویل عرصے تک ان کے سامنے ہائی کورٹ میں بطور وکیل پیش بھی ہوتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ماضی میں جھانکتے ہوئے بتانے لگے کہ جسٹس صاحب بطور وکیل سروسز معاملات میں اس شہر کے سب سے بڑے وکیل تھے، لیکن مزدوروں کا کیس مفت لڑتے، کیس جیتنے کا تناسب حیران کن تھا۔ کیس جیت جاتے تو مزدور مل کر ان کی جیب میں کچھ پیسے ڈالتے جسے انہوں نے کبھی گننے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ پیسے نہ دیتے تو بھی انہیں چائے پلا کر دروازے تک رخصت کرنے آتے۔
مزید بتایا کہ ایک بار چیف جسٹس ہائی کورٹ کی حیثیت سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک تھے اور اسی میٹنگ کا ایجنڈا عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ اور طوالت کے حوالے سے تھا۔ تمام شرکا نے اپنی اپنی تجاویز اور آرا پیش کیں تو صدارت کرنے والے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے آخر میں جسٹس وقار احمد سیٹھ سے ان کی رائے مانگی، جس پر انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’ہم (ججز) کی تنخواہیں چونکہ لاکھوں میں ہیں اس لیے ہماری تنخواہ 50 فیصد کم کر کے ان ہی پیسوں سے نئے ججز تعینات کیے جائیں تاکہ کام کی رفتار بڑھے۔‘
ظاہر ہے اس تجویز سے اتفاق کرنے والا تو کوئی نہ تھا لیکن بل سب کی پیشانیوں پر پڑے۔
جس سٹیڈیم میں جنازے کا انتظام کیا گیا تھا اس کے عقب میں جسٹس صاحب کا گھر بھی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ان کا جسد خاکی لایا گیا اور جنازے کے لیے صفیں درست ہونے لگیں تو یوں محسوس ہوا جیسے پورا شہر اجتماعی گریہ کرنے لگا ہے۔
کسی نے کہا: ’وہ ہماری تاریخ کے سب سے بڑے منصف تھے،‘ دوسری آواز آئی ’اور سب سے دلیر بھی۔‘
واقعی دلیر بہت تھے کیونکہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں انتہائی سخت اور خوفناک فیصلہ دیتے ہوئے وہ لمحہ بھر کو بھی نہیں کانپے تھے۔ اسی تاریخی فیصلے کے دوسرے ہی دن جب وہ پشاور ہائی کورٹ آئے تو ایک سینیئر وکیل نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’سر آپ اپنے منصفانہ اور نڈر فیصلے کے سبب پورے ملک کے ہیرو بن چکے ہیں۔‘
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایک معصومانہ سادگی کے ساتھ پوچھا کہ ’کیوں وکیل صاحب کیا ہوا ہے۔‘ گویا اتنا بڑا فیصلہ بحیثیت جج ان کے لیے صرف ایک فیصلہ ہی تھا عام لوگوں کے فیصلوں کی مانند۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ گو کہ اب ایوان عدل کے کسی منصب اور زندگی کی کسی راہداری میں اپنے عادلانہ فیصلوں اور پروقار شخصیت کے ساتھ جسمانی طور پر تو نظر نہیں آئیں گے لیکن ان چراغوں کی حرمت اور روشنی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا جن چراغوں کو جسٹس وقار احمد سیٹھ تاریک اور بہیمانہ طلسم اور تند ہواؤں کے مقابل بھی روشن کرگئے۔