نشریاتی پابندی: 'مفرورملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں'

مفرور ملزمان کی تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی کے خلاف صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی درخواست پر سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکیل سے سوال کیا ’آپ چاہتے ہیں کہ تمام مفرور ملزمان کو ریلیف دیا جائے؟‘

دائر کردہ درخواست میں نواز شریف کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن اسی تناظر میں  پیمرا کا یکم اکتوبر کو جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن چیلنج کیا گیا ہے، جس میں پیمرا نے اشتہاری ملزمان کو ٹی وی پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔(اے ایف پی)

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کی تقاریر میڈیا میں نشر کرنے پر عائد پابندی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ مفرور ملزموں کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی)، پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور سینیئر صحافیوں نے  گذشتہ روز نواز شریف اور اسحاق ڈار کی تقاریر ٹی وی پر نشر کرنے پر پابندی سے متعلق جاری ہونے والی پیمرا کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا۔

ان کی دائر کردہ درخواست میں نواز شریف کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن اسی تناظر میں  پیمرا کا یکم اکتوبر کو جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن چیلنج کیا گیا ہے، جس میں پیمرا نے اشتہاری ملزمان کو ٹی وی پر دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

جمعرات کو اس درخواست پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزاران کے وکیل سے سوال کیا: ’آپ ریلیف کس کے لیے مانگ رہے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی تقریر بھی نشر کی جائے؟ کوئی مفرور عدالت نہیں آیا۔ یہ درخواست اتنی سادہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مفرور ملزمان کو روزانہ ڈسکس کیا جاتا ہے، صرف انہیں ایئر ٹائم دینے سے روکا گیا ہے۔کسی مفرور ملزم کو ریلیف دینا مفاد عامہ میں نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ چونکہ درخواست میں واضح نام نہیں تھا اس لیے چیف جسٹس نے بھی کسی موقعے پر نواز شریف کا نام نہیں لیا لیکن ان کے سارے ریمارکس اور وکیل کے دلائل نواز شریف کے  پیرائے میں ہوئے۔

درخواست گزاران کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ درخواست گزار کیا چاہتے ہیں کہ کس کو ریلیف ملے؟

ان کا کہنا تھا: ’پیمرا نے جو آرڈر پاس کیا اس کے خلاف متاثرہ شخص اپیل فائل کر سکتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی اپیل ہی دائر نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اس آرڈر سے متاثر ہی نہیں ہوا۔ جو قانون ایک آدمی کے لیے ہو گا اس کا اطلاق سب پر ہو گا۔‘

 چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہاں دو لوگ ہیں جو مفرور ہیں اور اس آرڈر سے متاثر ہیں۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دو نہیں، ہزاروں افراد مفرور ملزم ہیں اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ انہیں عوام تک معلومات پہنچانے سے نہ روکا جائے۔

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے، اور سوال کیا: ’آپ مفرور جنرل پرویز مشرف یا کسی اور کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں؟‘

اس سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’ہم کسی ایک شخص کی بات نہیں کر رہے۔ پیمرا کا آرڈر صحافیوں اور میڈیا پر سنسر کے لیے ہے اس لیے وہ بھی متاثرہ فریق ہیں۔‘

 چیف جسٹس نے وکیل سے مزید سوالات کیے کہ یہ بتائیں کہ کوئی شخص مفرور کیوں ہوتا ہے؟ عدالت مفرور کیوں ڈیکلیئر کرتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مفرور شخص کی تو شہریت بھی معطل، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’پورے جوڈیشل سسٹم کا امتحان ہے، آپ چاہتے ہیں کہ تمام مفرور ملزمان کو ریلیف دیا جائے؟ آپ درخواست گزاروں سے اس متعلق مزید ہدایات لے لیں۔‘

عدالت نے واضح کیا کہ ’اظہار رائے کی آزادی بہت ضروری ہے مگر یہاں پر سوال کچھ مختلف ہے، آپ کی درخواست سے ریلیف تمام مفرور ملزمان کو ملے گا جو عدالت نہیں دینا چاہتی۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث حالیہ چند سالوں میں عدلیہ نے بہت مشکالات کا سامنا کیا ہے۔‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ملزم کی غیر حاضری میں ٹرائل نہیں چل سکتا جس کی (غیر حاضری کی) ایک وجہ ہے۔

 

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کو جوڈیشل سسٹم پر اعتماد نہیں اور وہ بھاگ جاتا ہے تو اسے عدالت سرینڈر کرنے تک کوئی ریلیف نہیں دیتی اور اگر کوئی مفرور ہو تو وہ عدالت کا غیر قانونی آرڈر بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کیس کی تیاری کر کے آنے کو کہا اور سماعت 16 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

میڈیا میں بیانات

خیال رہے کہ ملزم نواز شریف نے 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹی کانفرنس سے خطاب کیا تھا جسے ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا تھا۔ اس تقریر میں نواز شریف نے فوج اور حکومت کو تنقید کا ہدف بنایا تھا۔ اس تقریر سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی تھی، جبکہ احتساب عدالت بھی توشہ خانہ کیس میں نو ستمبر کو انہیں اشتہاری قرار دے چکی تھی۔

21  ستمبر کو نواز شریف کی تقریر کے بعد اظہر صدیق نامی درخواست گزار نے پیمرا کو شکایت کی تو پیمرا نے یکم اکتوبر کو عدالت سے مفرور ملزمان کی تقاریر کو ٹی وی پر دکھانے کی پابندی عائد کر دی، جسے صحافیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں آزادی اظہار رائے کا قدغن کہا گیا۔

ان کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پیمرا کے 27مئی 2019 اور یکم اکتوبر 2020 کے آرڈر  کو کاالعدم قرار دیا جائے اور پیمرا کو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے سے روکا جائے۔

پاکستانی پاسپورٹ اور سیاسی عہدے رکھنے والی اب تک چار بڑی شخصیات کو پاکستان کی عدالتیں مفرور قرار دےچکی ہیں، جن میں نواز شریف، پرویز مشرف، اسحاق ڈار اور شوکت عزیز کے نام شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان