’چینی دیوی‘ چاند کا ٹکڑا لانے کے لیے روانہ

چین گذشتہ چار دہائیوں میں اس طرح کا خلائی مشن بھیجنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔

چین نے رواں ہفتے انسانوں کے بغیر چاند کے ٹکڑوں کے نمونے لانے کے لیے خلائی جہاز بھیج دیا۔

چین گذشتہ چار دہائیوں میں اس طرح کا مشن بھیجنے والا پہلا ملک بن گیا ہے اور یہ اس کے ’خلائی خواب‘ میں ارتقا کا واضح ثبوت ہے۔ چینی فوج کے زیر انتظام چلنے والے اس خلائی پروگرام پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس کا مقصد 2022 تک چاند پر عملہ تعینات کرنے کے لیے خلائی سٹیشن قائم کرنا ہے جس کے بعد انسانوں کو چاند پر بھیجا جائے گا۔

چین نے اس میدان میں امریکہ اور روس کی برتری کو کم کرنے کے لیے بھرپور محنت کی ہے۔ ان دونوں ممالک کے خلانوردوں کو خلائی تحقیق میں دہائیوں کا تجربہ حاصل ہے۔چین اپنے خلائی پروگرام کو دنیا بھر میں اپنے بڑھتے کردار اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

چین کے خلائی پروگرام کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کے حوالے سے چند اہم نکات یہ ہیں:

1957 میں روس کی جانب سے سپتنک نامی خلائی راکٹ لانچ کرنے کے بعد چین کے رہنما چیئرمین ماوزے تنگ نے کہا تھا ’ہم بھی سیٹلائٹ بنائیں گے۔‘ اس عمل میں ایک دہائی کا عرصہ لگا لیکن چین نے 1970 میں اپنا پہلا سیٹلائٹ ایک راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیج دیا۔

انسانوں کو خلا میں پہنچانے میں مزید کئی دہائیاں لگیں اور 2003 میں یانگ لیوی خلا میں جانے والے پہلے چینی خلا باز بنے۔ اس لانچ کے دوران مشن کی کامیابی کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کے باعث آخری لمحات میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن کی نشریات بند کرنا پڑی تھیں۔

خدشات کے باوجود یہ لانچ بہت آرام سے روانہ ہو گئی اور یانگ نے اپنے 21 گھنٹوں کی پرواز کے دوران 14 بار زمین کے مدار کا چکر لگایا۔ اس چینی خلائی جہاز کا نام ’شین زو فائیو‘ تھا۔ اس کے بعد سے چین کی جانب سے خلا میں مرد اور خواتین خلا بازوں کو بھیجنے میں اضافہ ہوا۔ امریکہ اور روس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چین زمین کے گرد چکر لگانے والا ایک خلائی سٹیشن بھی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔

’تیانگونگ ون‘ ستمبر 2011 میں خلا میں بھیجا گیا تھا جب کہ 2013 میں خلا میں موجود دوسری چینی خلا باز خاتون وانگ یاپنگ نے خلا سے چین کے بچوں کو ویڈیو کلاس کے ذریعے لیکچر دیا۔

اس لیبارٹری کو خلائی سٹیشن کی تعمیر کے سلسلے میں ہونے والے طبی تجربات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔لیبارٹری کے بعد 2013 میں ’جیڈ ریبٹ‘ نامی روور کو خلا میں روانہ کیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا لیکن اس روور نے چاند کی سطح پر اپنی متوقع زندگی سے 31 مہینے زائد گزار کر ایک ڈرامائی ریکوری کر ڈالی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں چین نے اپنا دوسرا سٹیشن ’تیانگونگ ٹو‘ روانہ کیا جسے ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے خلا میں انسان بھیجنے کے سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس سٹیشن پر بھیجے جانے والے خلابازوں نے وہاں چاول اور دوسرے پودے اگانے جبکہ خلائی جہاز کو لنگر انداز کرنے کے تجربات بھی کیے۔

چینی صدر شی جنگ پنگ چین کے ’خلائی خواب‘ کو اپنی راہ پر تیز رفتاری سے گامزن قرار دیتے ہیں۔یہ سفر اپنے خلائی سٹیشن کے قیام سے شروع ہو گا اور اس سلسلے میں خلائی سٹیشن کے حصوں کی روانگی 2022 تک شروع کی جائے گی۔ یاد رہے چین کو جان بوجھ کر بین الاقوامی خلائی سٹیشن منصوبے سے الگ رکھا گیا تھا۔

چین چاند پر ایک بیس بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہا ہے- ملک کے خلائی مشن کے سربراہ زہانگ کیجان 2029 تک ایک خلائی مشن قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا تھا جب 2017 میں خلا میں روانہ کیے جانے والا سیٹلائٹ لانگ مارچ فائیو وائی ٹو کی لانچنگ ناکام ہو گئی تھی۔

2019  میں چین کے ’چانگ ای فور‘نامی راکٹ نے چاند پر اتر کر تاریخ رقم کی تھی- چین کے خلاباز اور سائنس دان بھی مریخ پر انسانی مشن روانہ کرنے کے حوالے سے بات کر چکے ہیں جو چین کی عالمی سپر پاور بننے کی کوششوں کی کڑی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق