امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس کو چھوڑ دیں گے اگر جو بائڈین کی بطور فاتح باضابطہ تصدیق ہو جاتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کی ایسی کوششیں کی گئیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بیلٹ پیپر چوری ہونے کا کہا اور ایسے بہ بنیاد قانونی دعوے کیے جنہیں ملک بھر کی عدالتوں نے مسترد کر دیا۔
مگر اب وہ صدارتی انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنے کے مزید قریب آ گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطبق تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد پہلی مرتبہ صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر ٹرمپ اس بات کو تسلیم کرنے کے قریب دکھائی دیے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں صرف ایک ہی مرتبہ بطور صدر اپنی مدت پوری کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو ’شکست‘ دینے والے جو بائیڈن 20 جنوری کو بطور امریکی صدر عہدہ سنبھالیں گے۔
Just saw the vote tabulations. There is NO WAY Biden got 80,000,000 votes!!! This was a 100% RIGGED ELECTION.
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) November 26, 2020
جب ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ اگر الیکٹورل کالج جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کر دے تو کیا وہ وائٹ ہاؤس چھوڑ دیں گے تو انہوں نے کہا کہ ’یقینی طور پر۔ اور آپ یہ بات جانتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ غلطی کریں گے۔ یہ تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔‘
الیکٹورل کالج جو امریکہ میں صدر کا انتخاب کرتا ہے 14 دسمبر کو ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے 232 ووٹوں کے مقابلے میں جو بائیڈن کی 306 ووٹوں سے فتح کا اعلان کریں گے۔
جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر کوئی ثبوت پیش کیے بغیر انتخابی نتائج کے بارے میں کہا کہ ’یہ بہت بڑا فراڈ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے امریکی ووٹنگ نظام کو کسی ’تھرڈ ورلڈ‘ ملک کے نظام جیسا قرار دیا۔
صحافیوں سے بات کرنے سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اس انتخاب میں 100 فیصد دھاندلی ہوئی۔‘
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جو بائیڈن کے ترجمان مائیکل گوین سے جب ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’منتخب صدر بائیڈن نے 306 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں، ریاستیں ان نتائج کی تصدیق کر رہی ہیں، الیکٹورل کالم جلد ہی ان نتایج کا اعلان کر دیں گے۔‘
مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ ’میں اپنے لوگوں سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مایوس نہ ہوں، کیونکہ یہ دوڑ ابھی اختتام سے بہت دور ہے۔‘