خیبر پختونخوا: طبی عملے پر تشدد کے خلاف نئے قانون میں کیا ہے؟

ہسپتالوں میں تشدد روکنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے نیا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت طبی عملے، مریض یا تیمارداروں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد سمیت املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی ہو گی۔

نئے قانون کے تحت ہسپتال کی املاک کو نقصان پہنچانے کی صور ت میں قید اور جرمانے ہو سکتے ہیں (اے ایف پی فائل)

نومبر کی 20 تاریخ تھی اور دن کے تقریباً پانچ بج رہے تھے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی ہسپتال میں یہ ایک عام دن تھا اور مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔

ڈاکٹر انیس الرحمٰن ایمرجنسی یونٹ میں ڈیوٹی پر تھے کہ ایک مریض کو لایا گیا جس کی سانس پھول رہی تھی اور وہ بہت زیادہ ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ڈاکٹر انیس کو شک تھا کہ اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے لیکن مزید جانچ کے لیے سی ٹی سکین ضروری تھا اور اس کے لیے پہلے مریض کی حالت میں استحکام لانا اہم تھا۔

ڈاکٹر انیس نے مریض کے تیماردار کو باہر سے کچھ دوائیاں لانے کے لیے کہا تا کہ مریض کو تھوڑا آرام دے کر اس کا علاج شروع کیا جا سکے۔ ابھی تیمار دار دوائیاں نہیں لایا تھا کہ مریض دم توڑ گیا۔

اس کے بعد جو ہوا وہ ان کے سوچ و گمان میں بھی نہیں تھا۔ واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مریض کی ہلاکت کے بعد اس کے 20 کے قریب رشتہ دار وارڈ میں داخل ہوئے اور ڈرپ کو لٹکانے کے لیے استعمال ہونے والے ڈنڈے اٹھا کر ان کے پیچھے بھاگے۔

ڈاکٹر انیس کے مطابق تیمارداروں کو اندازہ تھا کہ ان کا مریض کی حالت نازک ہے اور اس کی ہلاکت میں ڈاکٹر کی کوئی کوتاہی نہیں لیکن پھر بھی وہ انہیں مارنے آ گئے، جس پر انہوں نے ڈاکٹروں کے کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے لاک کر دیا۔

وہ بتاتے ہیں: ’یہ لوگ 15 سے 20 منٹ تک کمرے کے دروازے کے باہرکھڑے ہو کر مجھے سنگین دھمکیاں دیتے رہے اور پھر چلے گئے۔ میں اس وقت شدید صدمے اور خوف سے گزرا تھا۔‘

ڈاکٹر انیس اکیلے نہیں ہیں بلکہ اس نوعیت کے پرتشد واقعات آئے روز مختلف ہسپتالوں میں طبی عملے کے ساتھ رپورٹ ہوتے ہیں۔

ایسے ہی واقعات کی روک تھام کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے پیر کو اسمبلی اجلاس میں ’خیبر پختونخوا ہیلتھ پرووائڈرز اینڈ فیسیلیٹیز ایکٹ 2020‘ کے نام سے قانون پاس کرایا جس میں ہسپتال کے عملے، مریض یا اس کے تیماردار کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد سمیت ہسپتال کی املاک کو نقصان پہنچانے پر متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

قانون کیا کہتا ہے؟

اس قانون کو منظور کرانے کے لیے ڈاکٹروں تنظیموں نے 2019 میں باقاعدہ ایک مہم چلائی تھی، جب پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹر ضیا الدین کو اس وقت کے وزیر صحت ہشام انعام اللہ کے سکیورٹی گارڈز نے ہسپتال کے اندر مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس واقعے کے بعد صوبے بھر میں طبی عملے نے مظاہرے کیے اور ہسپتالوں میں ڈیوٹی کا بائیکاٹ کیا تھا۔

اس نئے قانون کی دفعہ نمبر تین میں لکھا ہے کہ اگر کسی نے ہسپتال کے عملے، مریض یا مریض کے تیماردار کو تشدد کر کے زخمی کیا یا تشدد سے اس کی موت واقع ہوگئی تو متعلقہ شخص کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

تاہم اگر ہسپتال عملے کے زیر نگرانی اگر کسی سامان کو نقصان پہنچایا گیا تو اس شخص کو تین سال تک قید کی سزا اور ساتھ میں جس چیز کو خراب کیا گیا اس کی مارکیٹ قیمت کے برابر جرمانہ کیا جائے گا۔

ایکٹ کے مطابق یہ سزا اس صورت میں ہو گی جب سامان، جس کو نقصان پہنچایا گیا، وہ دوبارہ مرمت کے قابل نہ ہو اور اس کی مالیت ایک لاکھ روپے سے زائد ہو۔

اسی طرح اگر کسی شخص نے ہسپتال کے کسی سامان کو نقصان پہنچایا لیکن وہ قابل مرمت ہو تو ایک سال قید اور اس چیز کی مرمت پر خرچے کے برابر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ سزا ایک ماہ قید ہو جائے گی اگر کسی ایسی چیز کو نقصان پہنچایا گیا جس کی مالیت ایک لاکھ روپے سے کم ہو۔

ایکٹ کی شق نمبر سات کے مطابق اگر کسی شخص نے ہسپتال میں علاج معالجے میں رکاوٹ ڈالی تو اس کو تین سال قید اور 50 ہزار روپے سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا، اسی طرح اگر مرکز صحت میں طبی سہولیات دینے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو اس کو ایک سال قید سمیت 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔

ہسپتالوں میں طبی عملے پر تشدد کتنا زیادہ ہے؟

انٹرنیشنل کمیٹی آف دا ریڈ کراس(آئی سی آر سی) نے سال 2017 اور 2018 میں پشاور کے ہسپتالوں میں طبی عملے پر تشدد کے حوالے سے ایک سروے رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق پشاور کے ہسپتالوں میں 52 فیصد سے زائد عملے کو، جس میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈکس شامل تھے، تکرار یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سروے کے اعدادوشمار کے مطابق 49 فیصد عملہ تکرار جبکہ 23 فیصد سے زائد عملے کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد خود مریض یا ان کے تیماردار تھے جبکہ اس میں عام لوگوں سمیت سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔

ہسپتال میں اسلحہ لے جانے کے حوالے سے نئے قانون میں لکھا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ کسی شخص کو اسلحہ (لائسنس یا بغیر لائسنس ) ہسپتال کی حدود میں لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور خلاف ورزی کرنے والے کو ایک سے چھ مہینے تک قید سمیت 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔

ایکٹ میں جھوٹے الزامات لگانے کے حوالے سے بھی ایک شق ہے کہ اگر کسی نے الزام لگایا کہ فلاں شخص نے نئے قوانین کی خلاف ورزی کی لیکن وہ ثابت نہ کر سکا تو اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

اس قانون میں مراکز صحت میں کام کرنے والوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں جیسے کہ طبی عملہ علاج سے پہلے مریض یا اس کے تیماردار کو بہتر اور واضح طریقے سے علاج کے طریقہ کار کے بارے میں بتائے گا اور ساتھ میں علاج کا طریقہ کار لکھ کر مریض یا اس کے رشتہ دار کو دینے کا پابند ہو گا۔

قانون کے مطابق اخلاقی طور پر ہسپتال عملہ مریض کے بارے میں معلومات خفیہ رکھنے کا پابند ہوگا تاکہ کسی کی پرائیویسی متاثر نہ ہو اور صرف اس صورت میں عملہ مریض کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا جب اس کی ضرورت علاج یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں درکار ہوگی۔

اس ایکٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی ہسپتال عملے نے اس ایکٹ میں کسی بھی شق کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی جس میں اس کے لائسنس کی معطلی اور مرکز صحت کو سیل کرنے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟

گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صوبائی چیئرمین ڈاکٹر امیر تاج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس قانون کے پاس ہونے کو ایک مثبت اقدام سمجھتے ہیں۔ ’کسی بھی غلط کام یا تشدد کے خلاف قوانین پہلے بھی موجود ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔‘

ایکٹ کی ایک شق جو علاج معالجے میں رکاوٹ کے متعلق ہے، میں یہ واضح نہیں کہ آیا ہسپتال میں طبی عملے کی جانب سے صحت کی سہولیات روکنے پر ان کے خلاف کارروائی ہوگی یا نہیں کیونکہ شق میں مریض یا تیماردار کی جانب سے رکاوٹ نہیں بلکہ ‘کوئی بھی شخص’ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر امیر تاج نے واضح کیا کہ یہ شق مریض یا تیمارداروں کے لیے ہے کیونکہ ہسپتال میں طبی عملہ اگر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتا ہے تو وہ ہسپتال کو زبردستی بند نہیں کرتا بلکہ مریضوں کی طرف سے ہی سہولیات کی فراہمی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت