41 فیصد سے زائد پاکستانی طبی عملہ کرونا میں تشدد کا شکار

ہسپتالوں، ٹیسٹنگ مراکز اور کووڈ آئیسولیشن وارڈز میں کام کرنے والے 360 ہیلتھ ورکرز کے انٹرویوز سے اخذ کیے گئے نتائج کے مطابق طبی عملے پہ عدم اعتماد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

(اے ایف پی)

سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں اپنا انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (اے پی آئی ایچ) اور عالمی انجمن ہلا ل احمر کمیٹی (آئی سی آر سی) کی ایک تحقیقی رپورٹ سے سامنے آیا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کے دوران  41  فیصد سے زیادہ  صحت سے متعلق پاکستانی کارکنوں کو کسی نہ کسی طرح زبانی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

عرب نیوز کے مطابق اس تحقیقی منصوبے، جس کی تفصیل آج بدھ کو جاری ہوئی، کے تحت ہسپتالوں، ٹیسٹنگ مراکز اور کووڈ آئیسولیشن وارڈز اور لاہور ، پشاور اور کراچی میں قائم کیمپوں میں کام کرنے والے  360 ہیلتھ ورکرز کے انٹرویوز شامل کیے گئے۔

تحقیق کے عمل میں ڈاکٹروں، نرسوں،  ڈاکٹروں کے معاونین، لیب ٹیکنیشنز اور ایمرجنسی ورکرز کو شامل کیا گیا ہے جیسا کہ ایمبولینس گاڑیوں کے ڈرائیورز اور ایمرجنسی رسپانس والی ٹیمیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی سی آر سی کے پروجیکٹ ہیلتھ کیئر ان ڈینجر (ایچ سی آئی ڈی) کے سربراہ ڈاکٹر میرویس نے عرب نیوز کو بتایا:  'پاکستان میں مریضوں اور ہیلتھ ورکرز کے درمیان اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا کووڈ 19 اس صورت حال کو مزید سنگین بنا رہا ہے یا نہیں؟'

یہ تحقیق مئی اور جون  2020  میں کی گئی تھی جب پاکستان میں کرونا  (کورونا)  وائرس کی لہر عروج پر تھی۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ41.9 فیصد شرکا کو کووڈ 19 کے  مسئلے سے نمٹنے کے دوران تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ چھ فیصد نے جسمانی حملے کے بارے میں بتایا۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تشدد میں زبانی اور جسمانی حملے سمیت بدنامی اور مریضوں اور ان کے خاندانوں کی جانب سے قطع تعلقی شامل ہے۔

اے پی آئی ایچ کے پروفیسر ڈاکٹر شیراز خان کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس تحقیق سے ہیلتھ ورکرز کو اپنی بات سنوانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہیلتھ ورکرز کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے متعلق آگاہی دے کر  ہمیں اس غلط فہمی کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہیلتھ ورکز اعتماد کے قابل نہیں ہوتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت