فیس بک نے اپنے دماغ پڑھنے والے خفیہ آلے کے منصوبے کی مزید تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے اپنے ملازمین کو منگل کو ایک نجی میٹنگ میں بتایا ہے کہ یہ کیسے کام کرے گا۔
بز فیڈ نیوز کی حاصل کردہ اس میٹنگ کی آڈیو ریکارڈنگ میں فیس بک کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر مائیک شروپفر نے وضاحت کی کہ کس طرح ایک نیورل سینسر لوگوں کی سوچ کو ٹائپنگ یا کسی ویڈیو گیم میں کسی ورچوئل شے کو پکڑنے جیسی کمپیوٹر کمانڈز میں منتقل کرے گا۔
انہوں نے کہا: ’ہم سب کو مستقبل دیکھنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے کیوں کہ ہم خود اسے بنا رہے ہیں۔‘
شروپفر نے یہ بھی کہا کہ اس آلے کو متعارف کروانے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں کمپنی کی پرائیویسی پالیسی کے تصور جیسی چیزوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہو گی۔
’ہمیں ذمہ داری لینا ہوگی کہ ہم لوگوں کا اعتماد حاصل کر سکیں اور پھلیں پھولیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اسے ٹھیک طریقے سے کریں تاکہ دنیا بھر کے لوگوں کو یہ حیران کن ٹیکنالوجی دیکھنے کو ملے، مگر بغیر مضر اثرات کے۔‘
یہ افواہیں کئی برس سے گردش کر رہی ہیں کہ فیس بک کسی نیورل آلے پر کام کر رہی ہے، تاہم اس کی حتمی شکل کے بارے میں بہت کم تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پچھلے سال فیس بک نے نیورل انٹرفیس پر کام کرنے والی ایک سٹارٹ اپ کمپنی ’کنٹرول لیبز‘ کو ایک ارب ڈالر کی مالیت سے خریدا تھا۔ فیس بک کے آگمنٹڈ ریئلٹی کے سربراہ اینڈریو بوزورتھ نے اس وقت کہا تھا کہ اس سے ’نئے تخلیقی امکانات کھلیں گے،‘ اور اس سے ’ہمارے آپسی رابطوں کے طریقے بدل جائیں گے۔‘
یہ سٹارٹ اپ کمپنی اپنی خریداری کے وقت کلائی پر پہنے جانے والے ایک آلے پر کام کر رہی تھی، جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ ہاتھوں کی جنبش سے دماغ میں پیدا ہونے والی اعصابی سرگرمی کو پڑھ کر اسے کمپیوٹر کنٹرولز میں تبدیل کر سکتی ہے۔
2019 کی ابتدا میں فیس بک نے ایک اور قسم کے دماغی کمپیوٹر کے انٹرفیس کا انکشاف کیا تھا، جسے کلائی پر نہیں بلکہ ایک ہیڈ سیٹ کی شکل میں سر پر پہنا جاتا ہے۔
’نیچر کمیونی کیشنز‘ نامی جریدے میں فیس بک کے تحقیق کاروں نے ایک مقالے میں بیان کیا تھا کہ یہ ہیڈ سیٹ دماغ کی سرگرمی کو پڑھنے والے الگوردم پر مبنی ہے اور فوری طور پر تحریر کرکے بتا سکتا ہے انسان کیا کہہ رہا ہے۔
یہ آلہ دماغ کے باہر پہنا جاتا ہے اور یہ ابھی سے چند گنے چنے الفاظ اور جملے پہچان سکتا ہے۔
اسی مقالے کی اشاعت کے وقت فیس بک نے لکھا تھا: ’ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں ہر قسم کا علم، تفریح اور آج کے سمارٹ فون کے فوائد بغیر ہاتھ لگائے فوری طور پر دستیاب ہوں۔‘
منگل کو عملے کی میٹنگ کے دوران فیس بک کے حکام نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک اسسٹنٹ بھی متعارف کروایا جو صارفین کی فیس بک فیڈز کا خلاصہ کرتا ہے۔
اس آلے کا نام ٹی ایل ڈی آر ہے جو too long, didn’t read کا مخفف ہے اور یہ لمبے مضامین کو بلٹ پوائنٹس میں منتقل کر سکتا ہے جس سے ویب پبلشرز کو ملنے والی رہی سہی ٹریفک بھی کم ہو جائے گی۔
فیس بک نے فوری طور پر انڈپینڈنٹ کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
© The Independent