پی ڈی ایم قیادت کا استعفوں پر زور: کیا اراکین مستعفی ہونا چاہتے ہیں؟

بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعوے سامنے آرہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بعض اراکین مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں کے مکمل اراکین نے استعفے جمع نہیں کروائے۔

22 نومبر 2020 کو پشاور میں  مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر  پی ڈی ایم رہنما ریلی میں شرکت کے لیے آتے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اگرچہ پی ڈی ایم کی قیادت تو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے پر متحد دکھائی دیتی ہے، لیکن بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آرہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بعض اراکین مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں کے مکمل اراکین نے استعفے جمع نہیں کروائے۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے اراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کو مستعفی ہونے کے لیے 31 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔

کتنے استعفے جمع ہوئے؟

13 دسمبر کو پی ڈی ایم کے لاہور میں ہونے والے جلسے کے بعد جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو استعفے پارٹی قیادت کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی تھی لیکن ابھی تک کئی اراکین نے استعفے جمع نہیں کروائے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کے وفاق اور پنجاب کے 80 فیصد اسمبلی اراکین نے استعفے جمع کروا دیے ہیں جبکہ باقی بھی جلد جمع کرائیں گے۔

انہوں نے کہا: 'اب تو حلقوں کے عوام بھی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین سے پوچھتے ہیں کہ استعفیٰ جمع کروا دیا؟ لہذا مقبول نظریے کے ساتھ چلنا تمام اراکین کی مجبوری ہے، ایسا نہیں ہے کہ کوئی اس فیصلے سے انحراف کر سکے۔'

اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی پارٹی قیادت مکمل طور پر پی ڈی ایم کے فیصلوں پر عمل کر رہی ہے۔

بقول چوہدری منظور: 'ہمارے وفاق، سندھ، پنجاب اور دیگر اسمبلیوں سے بیشتر اراکین نے استعفے جمع کرادیے ہیں بقیہ بھی جلد جمع کرانے کو تیار ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ ہم 26 دسمبر کو مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کے اجلاس میں بھی جائزہ لیں گے کہ جنہوں نے استعفے جمع نہیں کروائے وہ بھی فوری طور پر اپنے استعفے قیادت کو جمع کروا دیں۔

استعفوں سے متعلق بعض اراکین پر عدم اعتماد کیوں؟

تجزیہ کار چوہدری غلام حسین نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کے 45 ایم پی ایز اور 25 ایم این ایز اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہونا چاہتے اور انہوں نے ابھی تک استعفے بھی جمع نہیں کرائے جبکہ اطلاعات ہیں کہ ان میں سے بعض کو نائب صدر مریم نواز نے استعفے دینے کاپیغام بھی بھجوایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ 'مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز گروپ، مریم نواز کی ہدایت پر مستعفی ہونے کو تیار نہیں جبکہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی جیل میں ملاقات کے دوران بھی شہباز شریف نے مشورہ دیا کہ استعفے آخری آپشن ہیں اور جلد بازی نہ کی جائے۔'

چوہدری غلام حسین کے مطابق: 'آصف علی زرداری بھی اس حق میں ہیں کہ اسمبلیوں سے فوری استعفے دینے کی ضرورت نہیں لہذا حکمت عملی سے کام لیاجائے اور اس اعلان کو صرف حکومت پر دباؤکے لیے استعمال کیا جائے۔'

دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سعید غنی نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان اراکین اسمبلی کے استعفوں پر اختلاف کی خبروں کے حوالے سے کہا تھا کہ 'یہ افواہیں حکومت کے لوگ پھیلا رہے ہیں، جن میں کوئی صداقت نہیں۔'

چوہدری غلام حسین نے مزید بتایا کہ حکومت بھی اپوزیشن اراکین کو مستعفی ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ پارٹیوں میں اتفاق رائے مضبوط نہ ہوسکے اور حکومت پر زیادہ دباؤ نہ آئے۔

تاہم چوہدری منظور کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا کوئی بھی رکن حکومت کے بہکاوے میں نہیں آئے گا، سب اراکین اپنی قیادت سے متفق ہیں اور اسی لیے وقت سے پہلے ہی استعفے جمع کروا رہے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'ہوسکتا ہے استعفوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور حکومت پہلے ہی ختم ہوجائے لیکن پھر بھی اپوزیشن اپنی حکمت عملی پر قائم ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست