بڑی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اس اتوار (13 دسمبر) کو لاہور میں اپنے جلسوں کی مہم کا آخری جلسہ کرنے جا رہا ہے۔
بطور میزبان پاکستان مسلم لیگ ن اس جلسے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی اور پنجاب میں حکومتوں نے جلسہ نہ روکنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ کہا ہے کہ جلسے کے لیے خدمات فراہم کرنے والوں کے خلاف مقدمے درج ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اشارہ دے چکی ہیں کہ پی ڈی ایم آٹھ دسمبر کو جلسوں کے بعد کا لائحہ عمل بنائے گی اور اسمبلیوں سے استعفے بھی سنجیدگی سے زیر غور آئیں گے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں شروع سے ہی یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیں کہ موجودہ حکومت ناکام ہو چکی اور یہ آج گئی یا کل گئی، مگر عملی طور پر ابھی تک اپوزیشن کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کی مثال پی ڈی ایم کے کنوینر اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا گذشتہ سال اسلام آباد میں ناکام دھرنا، سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ناکامی اور اپوزیشن بیانیے کے غیر موثر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیے جاتےہیں۔
تاہم دیکھنا یہ ہے کہ جلسوں کے بعد پی ڈی ایم کے اسلام آباد کی جانب مارچ، دھرنے اور استعفوں کی صورت میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گھر جا سکتی ہے یا نہیں؟ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں پی ڈی ایم کو عملی طور پر ابھی ثابت کرنا ہے کہ موجودہ حکومت آئینی طریقے سے گھر جا سکتی ہے یا نہیں۔
سیاسی مبصر اور پنجاب کے سابق نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تک پی ڈی ایم کا کوئی ایسا دباؤ دکھائی نہیں دیا جس سے حکومت ختم ہوسکتی ہو کیونکہ جلسے جلوسوں، دھرنوں اور احتجاج سے حکومتیں ختم نہیں ہوتیں۔
انہوں نے کہا: ’ماضی میں بھی یہ کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اس بار بھی یہ تحریک زیادہ موثر اس لیے نہیں دکھائی دے رہی کہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ عام آدمی کی نمائندگی موجود نہیں۔ دوسرا یہ کہ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں جو اجتماعی بڑے فیصلوں میں رکاوٹ ہیں جیسے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت قبل از وقت ختم کرنے کو پوری طرح تیار نہیں۔‘
حسن عسکری کے مطابق ابھی تک پی ڈی ایم کے سیاسی دعوؤں میں حکومت کے لیے کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔
عسکری قیادت اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کی صورت میں پی ڈی ایم کیسے کامیاب ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم اسمبلیوں سے استعفے دے کر اسلام آباد میں دھرنا دیتی ہے اور نتیجتاً حالات خراب ہوتے ہیں تو حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ ’اگر پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے متحد ہو کر تہیہ کر لیا کہ حکومت کو ہر صورت گھر بھیجنا ہے تو اس کے لیے ہر لحاظ سے غیر معمولی دباؤ بنانا پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں حکومت تبدیل ہونے کے پاکستانی سیاست پر اثرات ضرور مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ جوبائیڈن انتظامیہ اس خطے کی ٹرمپ انتظامیہ سے بہتر معلومات رکھتی ہے۔ ’بائیڈن کے نواز شریف، آصف علی زرداری سمیت اپوزیشن قیادت سے بہتر تعلقات ہیں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اپوزیشن رہنماؤں کو زیادہ نہیں جانتی تھی اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی ماضی کی پالیسی کو تبدیل کرنے پر غور کریں جس کا فائدہ اپوزیشن کو پہنچ سکتا ہے اور حکومت کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ ابھی تک پی ڈی ایم ایسے حالات پیدا نہیں کر سکی جس سے آئندہ سینیٹ انتخابات میں رکاوٹ ڈالی جا سکے یا حکومت ختم کرنے کی کوئی صورت بنے، تاہم اگر اپوزیشن نے جلسوں کے بعد لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تو حالات سنگین ہونے پر تیسری قوت کو مداخلت کر کے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، سلمان غنی کے خیال میں ابھی تک سٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں لہٰذا حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ ’اپوزیشن تحریک کو بالکل غیر موثر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ماضی میں ایک یا دو جماعتوں نے لانگ مارچ اور دھرنے دیے لیکن اس بار اپوزیشن کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہیں اور انہوں نے اپنی عددی طاقت بھی جلسوں سے ثابت کر دی ہے، ایسے میں پی ڈی ایم نے دھرنے یا احتجاج کا فیصلہ کیا تو حالات غیر معمولی ہوں گے۔‘
سلمان غنی کے مطابق اسمبلیوں سے استعفے آخری آپشن ہوتا ہے، اگر پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے بھی استعفے دے دیے تو پھر حکومت کے لیے یقینی طور پر بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے اور سٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا غیر جانبدارانہ کردار واضح کرنا پڑسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں تین بار وزیراعظم رہنے والے اپوزیشن کے لیڈر اور دیگر رہنماؤں نے عسکری قیادت کو پارٹی بنا کر تنقید کی اور ان پر حالات کی ذمہ داری ڈالی ہے، ایسے حالات میں سٹیبلشمنٹ کو ملک کو غیر معمولی صورتحال سے نکالنے کےلیے اپوزیشن کی بات سننی پڑے گی اور مطالبات بھی ماننا پڑ سکتے ہیں۔
لہذا پی ڈی ایم کے آئندہ کے لائحہ عمل سے اندازہ ہوگا کہ وہ اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے اور جو دعوے کیے جا رہے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانے کا کیا بندوبست ہوگا۔