نیا عمرانی سال

نہ استعفوں کا لائحہ عمل واضح ہوا نہ لانگ مارچ کا فیصلہ۔ گرفتاریاں پہلے بھی ہو رہی ہیں، جیل بھرو قسم کی تحریک بھی فی الحال زبانی اعلانات سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

(اے ایف پی/ فائل فوٹو)

سال 2021 کے آغاز کا انتظار تو دنیا میں ہر فرد کو تھا لیکن پاکستان میں اہلِ سیاست و صحافت کی خاص دلچسپی سالِ نو پر ہونے والے اپوزیشن اتحاد کے ’ایک اور‘ سربراہی اجلاس پر ٹِکی ہوئی تھی کہ دیکھیے کیا عہدِ نو ہوتا ہے۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پی ڈی ایم نے جس زور و شور اور جس جارحیت سے اپنا آغاز کیا تھا لگتا ہے کہ تین ماہ میں ہی تھکن کے آثار نمایاں ہیں۔

ہر پندرہ بیس روز بعد اپوزیشن سربراہی اجلاس کرتی ہے اور قصہ مختصر نشستند گفتند گرخاستند۔ ہر بڑی بیٹھک یہ کہہ کر اٹھ جاتی ہے کہ لانگ مارچ کی تاریخ کا فیصلہ اگلی بیٹھک کرے گی۔

اپوزیشن کا وہی احوال ہو گیا ہے کہ شیر آیا... شیر آیا... والی کہانی کے مصداق گاؤں والے اب اسے ٹھٹھے مذاق سے تشبیہ دینے لگے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ جب واقعی شیر آ جائے تو گاؤں والوں میں سے کوئی گھر سے باہر ہی نہ نکلے اور منادی کرنے والا خود ہی شکار ہو جائے۔

توقع تو کی جا رہی تھی کہ یکم جنوری والے اجلاس میں کچھ واقعی بڑے اور فیصلہ کُن فیصلے سامنے آئیں گے (جس کا پرچار ہر بڑی بیٹھک سے پہلے اپوزیشن کی طرف سے کیا جاتا ہے) لیکن میٹنگ میں سے نکلا کیا....... ڈھاک کے تین پات۔

کوئی بڑا فیصلہ کیا ہونا تھا الٹا بڑا یوٹرن لے لیا گیا کہ ضمنی انتخابات میں حصّہ لیا جائے گا۔

اب کوئی ہماری بھولی بھالی معصوم اپوزیشن سے پوچھے کہ بھَلے لوگو، جس پارلیمان کو جعلی کہتے ہو، جس پارلیمان کو تسلیم نہیں کر رہے، جس پارلیمان میں نیشنل ڈائیلاگ نہیں کرنا چاہتے، جس پارلیمان میں باوجود سپیکر کے بار بار بلانے اور ایشوز پر قومی ڈیبیٹ کرنے کے لیے نہیں جاتے، اُسی پارلیمان کے لیے ضمنی الیکشن بھی لڑنا ہے...... اور کیسی ستم ظریفی ہے کہ ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان خود مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں جو پہلے دن سے اسمبلیوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

اب اِس آدھی تیتر آدھی بٹیر والی سیاسی حکمت عملی کو کنفیوژن نہ کہیں یوٹرن نہ کہیں دوغلا پن نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔

ایک طرف اپوزیشن انتخابی دھاندلی کا شور مچاتی ہے دوسری طرف اسی دھاندلی زدہ سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے اس کے ماتحت الیکشن بھی لڑتی ہے مگر انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمان میں بیٹھتی نہیں۔

ایک طرف وزیراعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ ہے، دوسری طرف پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف الیکشن میں حصّہ بھی لینا ہے، ایک طرف وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں نئے عام انتخابات کروائیں لیکن دوسری طرف موجودہ اسمبلیوں کو تقویت بھی دینی ہے۔

عجب گھوم گھُمیری ہے، سوچنے بیٹھو تو سر چکرا جائے کہ بڑے بڑے عالی دماغ کیسے کیسے نادر آئیڈیاز لیے بیٹھے ہیں۔

ضمنی الیکشن میں حصّہ لینا تو فی الحال ٹریلر ہے غالب امکان اب تو یہی نظر آتا ہے کہ پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن میں بھی حصّہ لے گی اور حکومتی پیشگوئیوں کو یقینی بنانے کی حتی الامکان اور حتی المقدور کوشش کرے گی۔

پیپلزپارٹی کی سیاست کو بار بار سراہنے کو جی چاہتا ہے کہ ایک طرف وہ نہ صرف اپوزیشن اتحاد کا حصّہ رہ کر جارحانہ اپوزیشن کا رول بخوبی نِبھا رہی ہے وہیں کہنے کو تو سربراہی مولانا صاحب کر رہے ہیں مگر اصل ڈرائیونگ رول پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے اور بڑی خوبصورتی سے باقی تمام اپوزیشن جماعتوں کو آگے لگا رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلزپارٹی کمال مہارت سے اپوزیشن اتحاد کے فائدے بھی اٹھا رہی ہے اور اپنے جداگانہ اور آزاد سیاسی فیصلے بھی زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر اٹھا رہی ہے۔ یہ پیپلزپارٹی ہی کی سوچ تھی کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جائے جس نے پہلے ن لیگ اور پھر کُل اپوزیشن اتحاد کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کر دیا۔

اب پی پی سینیٹ الیکشن میں بھی بھرپور حصہ لے گی اور پی ڈی ایم کیا فیصلہ کرے گی یہ کوئی ملین ڈالر سوال باقی نہیں رہ جاتا۔

گذشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ انقلاب کے فیصلے نہ حالات کی تبدیلی کے تحت کیے جاتے ہیں نہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو جیسے محاوروں کے مصداق۔

بجائے اِس کے کہ پی ڈی ایم کے آغاز سے ہی ہر حکومتی پینترے کا جواب اور توڑ سوچ کر رکھا جاتا؛ اپوزیشن حکومتی چالوں کے زیرِ اثر چل رہی ہے۔

سینیٹ الیکشن بارے حکومتی سرپرائز نے پوری پی ڈی ایم کے کیلنڈر کو ہی انیس بیس کر دیا۔ مریم نواز روایتی جارحانہ بیانات تک ہی محدود رہ گئی ہیں۔

ایسی سیاست نہ صرف جارحانہ بیان بازی بلکہ طرزِ عمل اور سٹریٹیجی کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔ نہ تو لاہور جلسے سے آر یا پار ہوا نہ ہی یکم جنوری پی ڈی ایم سربراہی اجلاس سے کوئی ایسا انقلابی اقدام یا رد عمل سامنے آیا کہ حالیہ گرفتار کیے گئے سیاسی رہنما کی رہائی کا پروانہ ہی جاری ہو سکتا۔

اپوزیشن اتحاد مسلسل بیک فُٹ پر جا رہا ہے اِس کا (momentum) کمزور پڑتا جا رہا ہے اور سسٹم کے ساتھ جُڑے رہنے کی سٹریٹیجی بجائے عمران خان کے خود پی ڈی ایم کے لیے (counter productive) ثابت ہو رہی ہے۔نہ استعفوں کا لائحہ عمل واضح ہوا نہ لانگ مارچ کا فیصلہ۔ گرفتاریاں پہلے بھی ہو رہی ہیں، جیل بھرو قسم کی تحریک بھی فی الحال زبانی اعلانات سے آگے بڑھتی دکھائی نہیں دیتی۔

ایسے میں حکومت اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی نظر آئے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

پہلے بھی کئی بار عرض کی کہ جلسے، جلوس، ریلیوں، لانگ مارچ، استعفوں سے حکومت جانے والی نہیں۔ پہلے بھی بارہا درخواست کی کہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اصل فورم پارلیمان ہے یہی وہ مقام ہے جہاں حکومت کو پریشر میں لایا جا سکتا ہے اور عوامی مسائل کا واحد حل بھی پارلیمان میں ہی پنہاں ہے۔

رہ گئے وزیراعظم عمران خان تو اُن کو نوید ہو کہ ایسی اپوزیشن کے ہوتے وہ لازماً اپنے پانچ سال پورے بھی کریں گے...... نیا عمرانی سال مبارک ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ