اپوزیشن کی کبھی ہاں کبھی ناں

پی ڈی ایم اپنا لانگ مارچ کر کے بھی دیکھ لے۔ یہ قوم اب اقتدار کی ہوس میں ہونے والے کسی لانگ مارچ کی حمایت نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی چند مزید غلط فیصلے کر لے تاکہ اس کی حالت تمام قوم پر واضح ہو جائے۔

المیہ یہ ہے کے سیاسی جماعتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی سب کی کوشش یہ ہے کہ یہی ناکارہ اور ریجیکٹڈ نظام چلتا رہے اور انہیں لاڈلا بنایا جائے (اے ایف پی)

الیکشن 2018 پر جب حزب اختلاف انگلیاں اٹھاتی ہے تو اسے یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہار کی خفت مٹا رہی ہے۔ لیکن پچھلے دنوں پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے اس بات کی تصدیق کی کہ پچھلے الیکشن میں کھل کر انجینرنگ کی گئی۔

پی ایس پی کی شہرت یہ ہے کہ اسے انجینرز نے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے اور پی ٹی آئی کی مدد کے لیے بنایا مگر اب وہی جماعت اس الیکشن پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس سے پہلے اسی جماعت کے رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی۔ انہیں اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کے کم از کم ان کے چار ایم این اے الیکشن میں جیتیں گے۔

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

اب اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کے موجودہ حکومت کی حیثیت وہی ہے جو 2002 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ق حکومت کی تھی۔ کوئی شخص اسے عوامی حکومت نہیں مانتا تھا بلکہ آج تک مارشل لا کا سویلین چہرہ قرار دیتا ہے۔

المیہ یہ ہے کے سیاسی جماعتوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی سب کی کوشش یہ ہے کہ یہی ناکارہ اور ریجیکٹڈ نظام چلتا رہے اور انہیں لاڈلا بنایا جائے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے ممبران قسمیں کھا کر بتاتے رہے کہ یہ ایک دوسرے سے این آر او مانگ رہے ہیں۔

چند ہفتہ پہلے پی ڈی ایم نے میثاق پاکستان پیش کیا اور کہا اس کی تفصیلات لاہور جلسے میں پیش کی جائیں گی۔ یہ بھی کہا کہ وہ میثاق کے لیے قومی مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں لیکن لاہور میں میثاق پاکستان کا کوئی ذکر ہی نہ ہوا اور اگلے روز ایک قرارداد پیش کردی گئی جس میں کچھ بھی واضح نہیں تھا۔

آج اعلان یہ ہو رہا ہے کہ اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب یہ مذاکرات کی بات کر رہے تھے اس وقت بھی کئی دفع یہ بات آپ کے سامنے رکھی کہ یہ ظاہری طور پر حامی ہیں مگر اندرون خانہ یہ ابھی نظام میں کسی دور رس اصلاحات کے لیے تیار نہیں۔ اس یوٹرن نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔ ان کا تمام احتجاج موجودہ نظام کے تحت اقتدار حاصل کرنے  کے لیے ہے۔ 

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی ہے۔ اب وزیر اعظم نے خود تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیم حکومت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یعنی جو بات آپ کو دو سال پہلے بتائی تھی کہ نااہلوں کا ٹولہ ہے اسے اب ٹیم کا کپتان خود تسلیم کر رہا ہے۔

یہ کئی ہفتہ تک کہتے رہے کوئی مذاکرات اور این آر او نہیں ہوگا مگر آج یہ ہر روز خود مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور ہر قسم کی ڈیل کو تیار ہیں۔ ان کے بارے میں بھی آپ کو کئی دفعہ بتایا کہ نااہل، غیر سنجیدہ اور بچکانہ قسم کے لوگ ہیں۔ جبکہ ان کے اسٹیبلشمنٹ حمایتی صرف زور بازو پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے اس قسم کے غیر سنجیدہ لوگوں سے نہ مذاکرات ہو سکتے ہیں اور نہ ان سے ملنے کا کوئی فائدہ ہے۔ پی ٹی آئی کے چند سنجیدہ لوگوں سے رابطہ شروع کیا ہے مگر ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ لوگ خان صاحب کے پیچھے اندھوں کی طرح چلیں گے یا کچھ ہوش کے ناخن لیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ کے ذہن میں سوال یہ ہوگا کے کیا اس مایوس صورت حال میں قومی سیاسی مذاکرات ہو سکتے ہیں اور عوامی جمہوریہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ میرا خیال ہے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جس میں کچھ وقت اور لگے گا۔

پی ڈی ایم اپنا لانگ مارچ کر کے بھی دیکھ لے۔ یہ قوم اب اقتدار کی ہوس میں ہونے والے کسی لانگ مارچ کی حمایت نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی چند مزید غلط فیصلے کر لے تاکہ اس کی حالت تمام قوم پر واضح ہو جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی کچھ وقت چاہیے یہ سمجھنے میں کہ اس کے غلط فیصلوں نے ادارے اور ملک کو بہت نقصان پہنچایا جس کے بعد قومی مذاکرات کا ماحول بنے گا۔

میں نے اپنے سیاسی تجربہ کی بنیاد پر اندازے سے کیلنڈر کی ایک تاریخ پر نشان لگایا ہے جب قومی مذاکرات کے لیے ماحول سازگار ہوگا۔ مگر سیاست میں تاریخ دینے کا قائل نہیں ہوں اس لیے کسی کو یہ تاریخ نہیں بتائی۔ حالات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں اس لیے شاید میرا اندازہ غلط نکلے۔ مگر اب تک زیادہ تر اندازے صحیح نکلے اس لیے اعتماد ہے کہ میرا یہ اندازہ بھی صحیح ہے۔

قومی مذاکرات کا عمل صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب پوری قوم اور تمام سیاسی لوگ اس میں کھلے دل سے قدم بڑھائیں۔ سب کو یہ سمجھنا چاہیے اس ملک کی ترقی اور خوش حالی میں ہی سب کا فائدہ ہے اور موجودہ نظام اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ