کیپیٹل ہل پر دھاوا: یہ سب کیسے شروع ہوا؟

صدر ٹرمپ کی ایک تقریر کے بعد کچھ حامی ان کے جھنڈے لہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کرنے لگے جہاں ایسی افراتفری ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

مظاہرین کی جانب سے عمارت کے اندر توڑ پھوڑ کے واقعات بھی پیش آئے (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب کانگریس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔

صدر ٹرمپ کئی ہفتوں سے تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں فراڈ کے دعووں کے ذریعے اپنے حامیوں کو اس عمارت پر مارچ کرنے کی ترغیب دینے میں مصروف تھے جسے امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

جو بائیڈن کی جیت کو چیلنچ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار بدھ کو واشنگٹن پر مارچ کرنے  پر اکسایا جب امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے اجلاس طے تھے۔

صدر ٹرمپ نے 20 دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا: ’(ہمارا) 2020 کے انتخابات کو اعدادوشمار سے ہارنا ناممکن ہے۔ چھ جنوری کو (واشنگٹن) ڈی سی میں بڑا احتجاج ہو گا۔ سب وہاں پہنچیں، یہ وائلڈ (بے لگام) ہو گا۔‘

ان کے ہزاروں حامیوں نے کانگریس کی عمارت کا رخ کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انتخابی عمل کے خلاف اپنے غصے کے اظہار اور منتخب نمائندوں پر نتائج کو مسترد کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر کیپیٹل ہل کی عمارت پر مارچ کریں۔

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے سامنے کھڑے مجمعے سے خطاب میں کہا: ’ہم کیپیٹل جا رہے ہیں اور ہم اپنے بہادر سینیٹرز اور کانگریس اراکین کی ہمت بڑھائیں گے۔‘

بطور صدر اپنی آخری ممکنہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ’لڑنے‘ کی تلقین کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہم کبھی بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہم کبھی بھی ان ’بلشٹ‘ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘

تقریر کے تقریباً 50 منٹ بعد ٹرمپ کے کچھ حامی ان کے جھنڈے لہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کرنے لگے جہاں ایسی افراتفری ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 

مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے عمارت پر حملہ کیا اور قانون سازوں کے چیمبرز میں داخل ہو گئے۔ کانگریس میں سرٹیفیکیشن کا عمل روک دیا گیا اور نائب صدر مائیک پینس اور کانگریس کے ارکان کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔

واشنگٹن پولیس نے بتایا کہ اس دوران ایک شہری گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔

رات پڑتے ہی کیپیٹل ہل کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے لیکن اس کے باہر تھوڑی ہی دور کئی مظاہرین موجود تھے جن ملیشیا اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔

اوول آفس میں ٹی وی پر افراتفری کے یہ مناظر دیکھنے کے ایک گھنٹے بعد صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ ’مظاہرین کو پر امن رہنا چاہیے۔‘

دوسری جانب نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’یہ پر تشدد احتجاج نہیں بلکہ یہ بغاوت ہے۔‘ انہوں نے ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اس محاصرے کو ختم کرنے کی تلقین کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ