والدین زیادہ عمر کے ہوں تو بات کیوں نہیں مانتے؟

ابھی اٹھارہویں صدی میں انسان کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال کے درمیان تھی۔ یعنی دو سو سال پہلے کے حساب سے آپ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ کیا آپ خود کو 'سینئیر سٹیزن' مان سکتے ہیں؟

(ٹوئٹر)

آگ لگی ہے کبھی آپ کو؟ پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے اس کے مزے لینے شروع کر دیے ہوں؟ میرے ساتھ ہوا کچھ دن پہلے ایسا۔۔۔

میں ناشتہ کرنے نکلا۔ اندھا دھند قسم کے فوگی موسم میں وہ ایک چمکتا ہوا دن تھا۔ عام طور پہ حلوہ پوری اپنی آخری چوائس ہوتی ہے لیکن اس ہوٹل والے کے پاس کھلے میدان میں جو کرسیاں ڈلی تھیں وہ دیکھ کے میں تھاں رک گیا۔ سوچا کہ ایسی کراری دھوپ میں بٹھا کے مجھے کوئی تیل بھی پلا دے تو پی لوں، یہ تو پھر حلوہ پوری ہے۔

دور سے ایک لڑکا لہکتا ہوا آیا اور کہنے لگا 'جی چاچو جاااان۔' شکل دیکھتا ہوں تو وہ جس عمر کا ہے میرا چچا بھی ہو سکتا ہے، ایک بار تو بھرپور لگ گئی نا جیسے کہ ابے تم چاچو تمہارا باپ چاچو، میں کدھر سے چاچو؟ لیکن بہرحال ۔۔۔ چٹی داڑھی والے چاچو جان نے واحد موجود ناشتہ حلوہ پوری آرڈر کیا، گڑ والی چائے منگائی اور دھوپ سینکنے لگ گئے۔

ناشتہ کیا، چائے پی، تب تک کم از کم وہ مجھے چھ سات مرتبہ چاچو جان کہہ چکا تھا۔ اب مجھے اس چاچو جانیت کا مزا آنے لگ گیا تھا۔ میں نے گھر کے لیے پیک کرنے کا آرڈر دیا جو مجھے پانچ چاچو جان میں پڑا، پھر گاڑی ریورس کروانے میں دو چاچو جان لگے، جاتے جاتے معمولی ٹپ پہ بھی ایک چاچو جان ملا ۔۔۔ اب ارادہ ہے دوبارہ کسی دن پندرہ بیس چاچو جان کا ناشتہ کرنے جاؤں لیکن وہ دھوپ اب کس دن خدا نصیب کرے گا؟

جیسا کہ ہر سیانا کالم نگار ایسے کسی بھی واقعے میں دوسروں کے لیے سبق ڈھونڈ لیتا ہے، آپ کے بھائی نے بھی ڈھونڈا۔

جس طرح میں اب ایک ایسٹیبلشڈ چاچو جان ہو چکا ہوں لیکن اپنے آپ کو اتھرا جوان محسوس کرتا ہوں ویسے ہی ہمارے بزرگ بھی خود کو ہر وقت کم عمری جیسا سمجھتے ہیں۔ ایک دم نارمل!

آپ سوچیں، خاص طور سے پڑھنے والوں میں جو تیس یا چالیس کے آس پاس ہیں وہ اس عمر میں کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ کوئی کمزوری، کوئی شکایت؟ نہیں نا؟

اچھا بارہ سال کی عمر میں آپ تیس برس والوں کو کیا سمجھتے تھے؟ انکل، آنٹی، ادھیڑ عمر مرد یا عورت، محتاط ترین لفظ بھی استعمال کریں تو اس وقت آپ کے دماغ میں یہ عمر میچورٹی کی تھی۔ اب خود ہوئے بیٹھے ہیں، کوئی میچیورٹی آئی؟

تو عین یہی فیلنگ جو آپ کی تیس یا چالیس سال کی عمر میں ہے، ساٹھ یا ستر میں بھی ہو گی۔ دماغ کبھی ہار نہیں مانتا، آس پاس والے ہرا دیتے ہیں۔

ابھی اٹھارہویں صدی میں انسان کی اوسط عمر تیس سے چالیس سال کے درمیان تھی۔ یعنی دو سو سال پہلے کے حساب سے آپ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ کیا آپ خود کو 'سینئیر سٹیزن' مان سکتے ہیں؟ یا سوچیں، کوئی بچہ آپ کے پاس آئے اور کہے کہ چاچو جان، آپ نے اب زیادہ وزن نہیں اٹھانا، آپ کی عمر نہیں ہے، آپ اسے دل میں کیا کہیں گے اور منہ پہ کیا کہیں گے؟

بالکل اسی طرح ہمارے ابا جی لوگ، امیوں اور انکلوں کو لگتا ہے جب ہم انہیں بزرگی کا احساس دلاتے ہیں۔ انسان جس دن ہار مانتا ہے اس دن لیٹتا ہے، ہم لوگ انہیں زبردستی لٹانے پہ تلے ہوتے ہیں۔

آپ کے ابا جی میں بھی اتنا ہی نوجوان اتھرا گجر رہتا ہے جتنا آپ کے اندر ہے، فرق یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے لیے اسے پٹہ ڈالا ہوا ہے اور آپ انہیں بار بار بزرگی کا چہرہ کرا رہے ہوتے ہیں۔

آپ کی امی اگر چل پھر سکتی ہیں تو انہیں بیٹھنے کا نہ کہیں، وہ آج  بھی پورا کچن سنبھال لیں گی، آپ سے بہتر سنبھالیں گی، مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی ایکسٹرا کئیر لے کر کدھرے سائیڈ پہ ہو جائیں بس! اور خدا کے واسطے شاپنگ پہ جائیں تو ان کے لیے مرے ہوئے سرمئی یا مونگیا رنگوں کے کپڑے مت لائیں، انہیں یہ رنگ پھیکے لگتے ہیں لیکن وہ آپ سے نہیں کہتیں۔ انہیں اب بھی جامنی، میرون، بوٹل گرین پسند ہیں، مسئلہ اس گدی کا ہے جس پہ آپ نے زبردستی انہیں بٹھا دیا ہے۔

اگر آپ یقین کریں تو انہیں اس میک اپ کے بارے میں بھی پوچھنا ہے جو آپ کی بارہ تیرہ سالہ بیٹی کرتی ہے، بلکہ وہ یہ سب چیزیں لائٹ سی، ٹرائی بھی کرنا چاہتی ہیں، لیکن وہ ڈرتی ہیں کہ آپ نے انہیں حیرت سے منہ پہ انگلی رکھ کے دیکھنا ہے اور ان سے وہ 'تک' برداشت نہیں ہونی۔

پچھلے دنوں ایک مہربان دوست کے ابو بیمار ہو گئے۔ دو تین دن بعد حال چال پوچھنے کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ابو جی بات نہیں سنتے۔ سردی ہے لیکن صبح صبح مسجد جاتے ہیں تو ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیتے ہیں۔ سردی لگ گئی ہے۔

الحمداللہ ان کے ابو اب بہتر ہیں لیکن یہ مسئلہ سارے ابوؤں اور امیوں کا ہے۔ معاملہ سمجھنا ہو تو ایک سادہ سی مثال لیں۔ اگر آپ کے ابو یا امی کہیں کہ صبح اٹھو پانچ بجے اور نہا دھو کے، صاف ستھرے ہو کے بیٹھ جاؤ، تو شاید بیس سال کی عمر میں آپ کوئی خرمستی دکھا بھی دیں، چالیس یا پینتالیس کا ہوتے ہوتے وہ ستو مارے جائیں گے۔ آپ ان کی خوشی کے لیے بڑے آرام سے نہا کے، بیبے بچے بن کے صبح صبح بیٹھ جائیں گے۔

تو ساٹھ ستر کی عمروں تک جا کے ہمارے والدین کا بھی وہی معاملہ ہوتا ہے۔ ایک تو ساری عمر کی عادت پھر فرمانبرداری کا احساس ۔۔۔ یہ جو لیتھل کمبینیشن ہے نا مرشدو، یہ ہر ٹھنڈے پانی اور پوری سردیوں پہ بھاری ہے۔ صبر کر لیں، بس حفاظتی تدابیر کے ساتھ انہیں کرنے دیں جو بھی کر رہے ہیں، وہ بہتر جانتے ہیں!

کچھ پاپا جی، ابا جی یا امی جی لوگ اس کے برعکس بھی ہوتے ہیں۔ انہیں بزرگی چڑھ چکی ہوتی ہے۔ وہ بس چوبیس گھنٹے ریسٹ پروگرام میں رہنا چاہتے ہیں اور آہستہ آہستہ بیمار بھی ہونے لگتے ہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب اولاد حد سے زیادہ سعادت مند ہو یا بہت ساری ہو۔ بچے انہیں یقین دلا دیتے ہیں کہ بابا جی تسی ہن بہتا کم کر لیا، بے جئو سکون نال تے اللہ اللہ کرو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر آپ کے والدین اس سٹیج پہ جا چکے ہیں تو انہیں واپس بھی آپ ہی لا سکتے ہیں۔ بسم اللہ کریں سمارٹ فون سے یا ایک عدد ٹیبلٹ سے۔ شروع میں انہیں ان کی پسندیدہ جگہوں کی لائیو ویڈیو دکھائیں۔ جیسے دنیا بھر میں جتنے مذہبی مقامات ہیں سب چوبیس گھنٹے لائیو ٹیلی کاسٹ پہ رہتے ہیں۔ پھر انہیں یوٹیوب پہ ٹریولوگز دکھائیں اگر وہ سفر کے شوقین تھے تو، پھر فوڈ بلاگز ہیں، ٹاک شوز ہیں، ایک دنیا موجود ہے۔ پھر ان کے کپڑوں میں تھوڑے شوخ رنگوں کا اضافہ کریں۔ تھوڑا سا ہئیر کٹ اور سکن کئیر پہ توجہ دلوائیں۔ وقت ہے تو ساتھ واک پہ لے جائیں ورنہ ایک آدھی ٹریڈ مل افورڈ کر لیں۔ پانچ منٹ کا چلنا بھی ان کے لیے ایسا ہے جیسا آپ کے لیے پچاس منٹ۔ پھر انہیں چوی گھینٹے ابا جی اماں جی نہ کہیں۔ کبھی کبھی لاڈ سے مسٹر یا مسز اور جو بھی نام ہے ان کا، وہ لیں۔

وہ باہر نہیں جاتے اس لیے انہیں اب یاد نہیں ہے کہ وہ کبھی مسٹر اکرام یا مسز جمیلہ اکرام تھے، وہ صرف ابا جی اماں جی تایا جی اور تائی جی ہو چکے ہیں، تو انہیں ان کا نام دوبارہ پیش کریں۔

سو باتوں کی ایک بات، انہیں اپنے برابر کا سمجھیں۔ پینتیس کے بعد جسم بے شک اپنی عمر پوری کرتا ہے لیکن دماغ وہیں کہیں کھڑا ہوتا ہے۔ اسے آپ لوگوں نے اور سوسائٹی نے بوڑھا کیا ہوتا ہے زبردستی۔ ایسا نہ کریں۔ قسم بہ خدا جو کچھ آپ کر سکتے ہیں وہی سب کرنے کا انہیں  بھی حق حاصل ہے، طاقت ان کے پاس آلریڈی موجود ہے۔ انہیں بزرگی کی سولی پہ مت ٹانگیں!

ایک بات یاد آئی۔ کالم تو ختم ہو گیا لیکن تین ایک سال پہلے کا واقعہ ہے، پڑھ لیں۔

میں اور چھوٹا بھائی انار کلی گئے۔ اب چھوٹا ہے مجھ سے کوئی ڈھائی سال کم لیکن ماشاللہ لگتا دس پندرہ سال چھوٹا ہے۔ گاڑی پارکنگ میں لگائی۔ ایک بچہ آیا ٹوکن دینے، دس سال کا ہو گا۔ ادھر سے خاور نکلا، ادھر ڈرائیونگ سائیڈ سے میں نکلا، اس نے چھوٹے کو دیکھا، پھر دور سے میرے چٹے بالوں کو دیکھا جو دھوپ میں کچھ زیادہ ہی لائٹ مار رہے تھے، پتہ نہیں اسے کتنے زور سے سوال آیا، اس نے میری طرف اشارہ کر کے خاور سے پوچھا ۔۔۔ 'اوئے یہ تیرا ابو ہے؟'

لو جی کیا 'چاچو جان' پہ وٹ چڑھے ہوں گے جو اس دن پارکنگ والے بچے نے چڑھائے تھے۔ بھائی اس دن سے خود کو سرٹیفائیڈ بابا جی سمجھ چکا ہے۔

بہرحال، حکیم جالینوس نے ٹھیک ہی فرمایا تھا، گو ود دا فلو، چٹے بال اور کالا دل انسان کو سدابہار رکھتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ