'لوگ منتظر ہوتے ہیں کہ آپ سیاسی اختلاف کریں اور وہ چڑھ دوڑیں'

رچتا تنیجا بھارتی اسٹیبلشمنٹ پر تنقیدی خاکے بنانے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ ان کے یہ کارٹون ملک گیر سطح پر مشہور ہیں لیکن اب انہیں اپنے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی توہین کے مقدمے کا سامنا ہے۔

سیاسی کارٹون بنانے کی پاداش میں رچیتا تنیجا کو توہینِ عدالت کے مقدمے کا سامنا ہے۔ (رچیتا تنیجا)

 جب بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے دائیں بازو کے سرگرم نیوز اینکر کے مقدمے کی نہایت تیزی سے سماعت کرتے ہوئے انہیں بری کیا تو کارٹونسٹ رچتا تنیجا نے طنزیہ خاکے کے ذریعے  رد عمل دیتے ہوئے اس مقدمے میں مبینہ  ریاستی پشت پناہی اور طاقت کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کیا۔

وہ مسلسل طنزیہ ’سٹک فگر‘ کہلانے والے کارٹونوں کے ذریعے ایسا کرتی آ رہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ٹرولنگ کے ذریعے سخت سست سننے کی وہ عادی ہو چکی ہیں۔ تاہم اس بار سخت رد عمل براہ راست سپریم کورٹ سے آیا۔ اسٹیبلشمنٹ سے خوشگوار تعلقات نہ رکھنے والے صحافیوں کو مقدمہ چلائے بغیر کئی مہینوں تک حراست اور اس کے برعکس ری پبلک ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی کی جلد رہائی پر سوال اٹھاتی 29 سالہ طنزیہ کارٹونسٹ کو توہین عدالت کا سامنا ہے اور بطور سزا انہیں چھ مہینے کے لیے قید بھی کاٹنا پڑ سکتی ہے۔

انڈیینڈنٹ کے ساتھ بات کرتے ہوئے میڈیا گریجویٹ تنیجا کہتی ہیں کہ ان کی پہلی اور سب سے اہم شناخت انقلابی کی ہے اور وہ کبھی کٹیلے الفاظ کے استعمال سے دستبردار ہو ہی نہیں سکتیں۔

ان کے کارٹون ’سینٹری پینلز‘ کے نام سے انسٹا گرام اور ٹوئٹر پر چھپتے ہیں جہاں ان کے کل فالورز کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے۔ بظاہر سادہ نظر آنے والے سٹک فگر خاکوں کی مدد سے وہ صنفی امتیاز، سیاست اور سماجی مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ تنیجا کہتی ہیں ’انہیں بالکل یاد نہیں کہ یہ نام کیسے اپنایا‘ لیکن انہیں یقین تھا کہ ’یہ پہلے دن سے ہی بہت جارحانہ ثابت ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 مسلمانوں کے ہاتھوں زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف ہندو عورتوں کے تحفظ کی آڑ میں مردوں کی خود ساختہ مہم  اور نام نہاد ’لو جہاد‘ قوانین میں چھپی عورت سے نفرت کے مسئلہ کو تنیجا اپنے ایک حالیہ خاکے میں بیان کر چکی ہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ سوچی سمجھی سازش ہے۔ ایک اور طنزیہ خاکے میں وہ نجی سیکٹر کی براہ راست رسائی کو یقینی بناتی اصلاحات کے خلاف شمالی انڈیا میں کسانوں کے احتجاج اور مبینہ حکومتی بے حسی کو اجاگر کرتی ہیں۔

تنیجا کہتی ہیں، ’میرا خیال ہے نسوانیت ایک سیاسی تحریک ہے۔ میرے نزدیک دماغی صحت اور ایل جی ٹی بی کیو کے مسائل پر بات کرنا بھی سیاسی عمل ہے۔ بطور فیمنسٹ اور انسان جس تصور مساوات پر میرا یقین ہے وہ میرے کام سے بھی جھلکنا چاہیے۔‘

 بنگلور میں رہائش پذیر تنیجا کی ابتدائی پرورش دہلی کے ایک ہندو خاندان میں ہوئی جہاں دہلی یونیورسٹی سے انہوں نے میڈیا کی ڈگری لی۔ ابتدا میں گرین پیس کے لیے کام کرنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کا رجحان حقوق انسانی اور ماحولیات کی طرف ہے۔

انہوں نے سینٹری پینلز کا 2014 میں آغاز ایک طالب علم کی گرفتاری پر بنائے گئے کارٹون سے کیا تھا  جسے سیکشن 66 اے (جسے بعد میں ختم کر دیا گیا) کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس وقت ریاست سوشل میڈیا پر جارحانہ  پوسٹ کرنے والے شخص کو حراست میں لینے کی مجاز تھی۔ پھر انہوں نے انٹرنیٹ کی آزادی سمیت بہت سارے مسائل پر مہم چلائی جس پر انہیں انتہائی با اثر انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن کی فیصلہ ساز مجلس نے اپنے ساتھ شمولیت کی دعوت دی۔

 وہ کہتی ہیں، ’جب میں نے آغاز کیا تو سٹک فگر بنانے کی ایک ہی وجہ تھی کہ مجھے ڈرائنگ نہیں آتی تھی۔‘ اگرچہ اب ان کی خاکہ سازی لاکھوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ گذشتہ برس شہریت قوانین تبدیل کرنے کے متنازع حکومتی فیصلے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج پھوٹ پڑا جس میں ان کے کچھ طنزیہ خاکے اشتہاروں اور دیوار بنی تصاویر  کی شکل اختیار کر گئے۔

 تنیجا کے خیال میں ان کے خاکے اس لیے وسیع پیمانے پر پھیلتے ہیں کیونکہ وہ پیچیدہ رنگوں یا فنی نزاکتوں کے بجائے پیغام پر توجہ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میں خاکہ کھینچنے کی نسبت اپنے تصور میں اس کے خد و خال واضح کرنے پر زیادہ وقت صرف کرتی ہوں۔‘ ان کے بقول مودی کے برسراقتدار آنے سے پہلے وہ سماجی طور پر متحرک ہو چکی تھیں اور ’میں کانگریس کے خلاف مہم چلا رہی تھی کیونکہ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی۔‘

 بہرحال اب کئی سالوں سے تنیجا مودی حکومت کے حامیوں کی بدترین تنقید کا نشانہ بنتی آ رہی ہیں جن میں موت اور نجی معلومات فاش کرنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔ برسراقتدار بی جے پی کے آئی ٹی سیل کا نشانہ بننے والی محض وہی اکیلی  خاتون نہیں ہیں۔

تنیجا کہتی ہیں ’بعض اوقات اچانک تنقید اور میرے اکاؤنٹس کے خلاف عوامی شکایات کا انبار لگنا شروع ہو جاتا ہے اور یہ بڑی سطح پر 2019 کے عام انتخابات کے موقع پر ہوا۔ گویا آپ بہت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں متحرک کیا گیا تھا۔ ہم جنس پرستوں اور عورتوں کے خلاف نفرت کا طوفان برپا ہو جاتا ہے جیسے لوگ بس  منتظر بیٹھے ہوں کہ جیسے ہی آپ ان کی سیاسی رائے سے اختلاف کریں وہ آپ پر چڑھ دوڑیں۔!

اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دھمکیوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ ’ہمیشہ ایک خیال آتا ہے کہ میری زندگی کا کیا بنے کا اگر میں نے یہ چیز پوسٹ کر دی تو؟‘

وہ کہتی ہیں ’کیونکہ جب آپ کو مسلسل دھمکیاں مل رہی ہوں اور ان میں سے کچھ بہت مخصوص اور واضح ہوں تو آپ سوچتے ہیں کہ کیا میں محفوظ ہوں گی؟‘

تاہم تنیجا کہتی ہیں کہ وہ اپنی طاقت اور مخصوص آواز  سے واقف ہیں یعنی بولنا سب سے اہم چیز ہے۔ ’مجھے لگتا ہے جیسے ان مسائل پر بات کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اگر میرے اندر یہ مخصوص صلاحیتیں ہیں تو مجھے ان سے کام لینا چاہیے۔‘

انڈیا میں اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کارٹونسٹ اور مزاحیہ ادا کاروں کی ایک پوری روایت موجود رہی ہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ رد عمل نے اس روش پر چلنے والے تمام فنکاروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے بالخصوص جب متوازی طور پر سٹینڈ اپ کامیڈین کومل کامرا  کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی چل رہی ہے۔

مزاح اور طنزیہ پیرایہ اظہار پر  حالیہ اقدامات کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے 600 فنکاروں نے مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ کو کارروائی روکنے کا کہا ہے۔ اگرچہ مقدمے کی تاریخ کا اعلان ابھی تک نہیں ہوا لیکن سپریم کورٹ نے تنیجا کے خاکے کو  ’گستاخانہ حملہ اور ادارے کی بدنامی‘ قرار دیتے ہوئے ابتدائی طور پر کارروائی کی منظوری دے دی ہے۔

تنیجا  کے بنائے  ایک کارٹون میں سپریم کورٹ کی عمارت پر زعفرانی رنگ کا جھنڈا لہراتا نظر آتا ہے جو حکومتی جماعت بی جے پی کے جھنڈے کا رنگ ہے اور جو دونوں کی گذشتہ چند سالوں میں بڑھتی ہوئی مبینہ قربت پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایک اور خاکے میں بطور شرارتی بچے کے گوسوامی سپریم کورٹ اور بے جی پی کے درمیان کھڑے ہیں اور اس کا کیپشن ہے، ’تم جانتے نہیں میرا باپ کون ہے؟‘

 تنیجا سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتیں لیکن وہ بہت واضح انداز میں کہتی ہیں کہ بظاہر یہ میرے ساتھی فنکاروں کے لیے مایوس کن گھڑی ہے لیکن بہت کچھ اچھا بھی چل رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’ایمانداری کی بات یہ ہے کہ بہت سارے نئے ابھرتے ہوئے فنکار ہیں جو ابھی اپنے سفر کا آغاز کر رہے ہیں اور ہر روز مجھے کسی ایسے نئے شخص سے واسطہ پڑتا ہے جو بہت زبردست فن تخلیق کر رہا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں اگرچہ ٹرولنگ انتشار توجہ کا باعث بنتی ہے لیکن عوامی پذیرائی مجھے ہمیشہ مجتمع رکھتی ہے۔ ’مجھے ہمیشہ خاکوں پر رد عمل سے خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ ایک حوصلہ شکن جملے کے مقابلے میں سینکڑوں محبت بھرے پیغامات موصول ہوتے ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا