عدنان اوقتار: ترکی کا مذہبی فلسفی یا ٹی وی سٹار

ترکی کی عدالت نے ہارون یحیٰ کے نام سے مشہور عدنان اوقتار کو جنسی، مالی اور سیاسی جرائم کے الزام میں ہزار سال سے زائد قید کی سزا سنائی ہے۔

عدنان اوقتار (دائیں جانب)  استنبول میں میمارسنن آرٹ یونیورسٹی سے سیاسی اسلام کے مضمون میں فارغ التحصیل ہیں (تصویر: اے ایف پی)

ترکی کے ایک مسلمان عالم عدنان اوقتار کو خوش کرنے کے لیے ٹیلیویژن کیمروں کے سامنے رقص کرنے والی نیم برہنہ عورتوں کی ایک تصویر کو دنیا بھر میں شائع کیا گیا جب انہیں ایک ہزار سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ترکی کی عدالت نے عدنان اوقتار کو جنسی، مالی اور سیاسی جرائم کے الزام میں ہزار سال سے زائد قید کی سزا سنائی ہے۔

64 سالہ عدنان کو مالی جرائم کے سلسلے میں استنبول کی پولیس نے 2018 میں 200 سے زائد دیگر مشتبہ افراد کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ بعد میں ان پر خواتین کے ریپ، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، دھوکہ دہی اور جاسوسی سمیت متعدد جرائم بھی شامل کر لیے گئے۔

لیکن عدنان اوقتار کی کہانی شروع کہاں سے ہوئی؟

انقرہ میں پیدا ہونے والے عدنان اوقتار، جنہیں ہارون یحییٰ بھی کہا جاتا ہے، استنبول میں میمارسنن آرٹ یونیورسٹی سے سیاسی اسلام کے مضمون میں فارغ التحصیل ہیں۔

ترکی میں سن 1980 کی دہائی کے ہنگامہ خیز سالوں کے دوران جب ان کی فکری بنیادیں تشکیل دی گئیں تو وہ مارکسسٹ اور مادہ پرست نظریات کی مخالفت کے علاوہ فطری علوم کے جدید نظریات کی مخالفت میں آگے بڑھ گئے۔

ایک سیکولر مسلم اکثریتی ملک کی حیثیت سے، ترکی اب بھی ’ارتقا‘ جیسے نظریات کو قبول نہیں کرتا ہے۔ ترکی کے نظام تعلیم میں ڈارون کے خیالات کی ابھی بھی عرب دنیا کے نصاب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

عدنان اوقتار کا خیال تھا کہ ڈارون کے نظریات غلط تھے۔

ان کا نام مسجد میں طلبہ کو مذہبی سیاسی جلسے کرنے کے لیے جمع کرنے کے بعد مشہور ہوا۔ ان برسوں میں ان نے یہودیت اور فری میسنری کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔

اس کتاب میں اوقتار نے استدلال کیا ہے کہ ’یہودی اور فری میسن نے ترکی میں سرکاری اداروں میں دراندازی کی، جس کا مقصد ترک عوام کی روحانی، مذہبی اور اخلاقی اقدار کو ختم کرنا اور انہیں جانوروں میں تبدیل کرنا ہے۔‘

ان واضح الفاظ اور سخت تبصروں کے ساتھ نوجوان عدنان اور پولیس کا تعلق زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔

ان پر ’مذہبی انقلاب‘ کو فروغ دینے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور آخر کار انہوں نے اپنے 19 ماہ میں سے 10 ماہ ایک نفسیاتی ادارے میں جیل میں گزارے۔ جہاں ڈاکٹر کے مطابق ان میں ’جنون اور شیزوفرینیا‘ کی تشخیص ہوئی۔ وہ 31 سال کی عمر میں دماغی صحت کے معائنے کے لیے ڈاکٹروں کے پاس جانے لگے۔

عدنان نے سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن (بی اے وی) کی بنیاد 1990 میں اپنے خیالات کو فروغ دینے کے لیے رکھی تھی جس میں ڈارون کے نظریات کو مسترد کرنا اور ’تخلیق پسندی‘ پر زور دینا شامل تھا۔

ان کے سیاسی مسائل نوے کی دہائی کے اواخر اور نئی صدی عیسوی کے آغاز میں کم و بیش چلتے گئے۔ اسلامک ویلفیئر پارٹی اور پھر اے کے پی کے اقتدار میں اضافے کے بعد انہوں نے زیادہ آزادی حاصل کی، تاہم آخر کار اسی حکومت نے انہیں ایک ہزار سال قید کی سزا سنائی۔

انہیں 1999 میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔ اس مرتبہ ان پر ذاتی مفادات کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن قانونی تنازع کے دو سال بعد یہ الزام واپس لے لیا گیا۔

عدنان نے حکمران جماعت سے اپنا نظریاتی فاصلہ کم کر دیا اور اسی دوران اتاترک کے حامیوں یعنی کامل پرستوں کے دل جیتنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ترک قوم پرستوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کیے۔

انہوں نے اپنی بین الاقوامی حکمت عملی میں بھی تبدیلی لاتے ہوئے اپنی تقریروں میں ’یہود دشمنی‘ کم کی اور ہولوکاسٹ سے انکار کیا۔ امریکہ میں عالمی تجارتی مرکز پر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد انہوں نے ’اسلام دہشت گردی کی مذمت‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔

اس کے بعد عدنان اسلامی دنیا کے ایک بہت ہی مشہور مصنف بن گئے۔ ان کی کتابیں دنیا بھر کی بیشتر اسلامی کتابوں کی دکانوں میں فروخت ہوتی تھیں اور بہت سے لوگ ان کے ٹیلی ویژن شوز دیکھتے تھے۔

ان کی بہت سی کتابیں فارسی میں بھی ترجمہ ہوئیں اور ایران میں فروخت ہوئیں۔

ان کے مذہبی پروپیگنڈے کا بڑا حصہ ڈارون کے نظریے کے خلاف رہا۔ 2007 میں انہوں نے اپنے اٹلس آف کریایشن کی ہزاروں کاپیاں، جو اسلام اور تخلیق پسندی کی وکالت پر تھیں، یورپ اور امریکہ کے سکولوں میں بھیجیں۔

تب سے وہ بہت سے قانونی معاملات میں ملوث ہوگئے۔ ان کی زندگی بدل گئی اور انہیں ’عدنان اوقتار‘ کا ٹائٹل جو ان دنوں ہم میڈیا میں دیکھتے ہیں، وہ مل گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی طرز زندگی میں تبدیلیاں ترکی کی روایتی اور مذہبی برادری کے لیے اتنی ناقابل یقین تھیں کہ عوام میں یہ افواہیں پھیل گئیں کہ اسرائیل نے عدنان کو مار ڈالا ہے۔

ستمبر 2008 میں عدنان کی طرف سے ایک شکایت کی وجہ سے ایجوکیشن اینڈ سائنسی ورکرز یونین کی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ ملک کے تیسرے سب سے بڑے اخبار ’وطن‘ کی ویب سائٹ بھی بند ہوگئی۔

1999 کا مقدمہ بھتہ اور دھمکی کے الزامات کی بنیاد پر دوبارہ کھول دیا گیا۔ استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ بی اے وی نے اپنی خواتین ارکان کو استعمال کیا تھا۔ یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ ہزاروں افراد کی، جو گروپ چھوڑنا چاہتے تھے، کی جنسی حرکتوں کو خفیہ طور پر ان ارکان سے رقم بھتہ لینے کے لیے فلمایا گیا تھا۔ ان ٹیپس کو جاری کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

نوجوان لڑکیوں کے، جنہیں ’چھوٹی بلیوں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اہل خانہ بار بار سوشل میڈیا پر عوام سے اپنی بیٹیوں کی بازیابی میں مدد کی اپیل کرتے رہتے تھے۔ لیکن اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی تنظیم کو سب سے بڑا سیاسی دھچکا لگانے والی وہ تبدیلیاں تھیں جو 2016 میں ترکی میں ’ناکام بغاوت‘ کے بعد رونما ہوئی تھیں۔

اردوغان حکومت کا اب بھی دعویٰ ہے کہ یہ بغاوت ان کے سابق اتحادی گلین سے وابستہ افواج کے ذریعے انجام دی گئی تھی جبکہ گلین کا خیال ہے کہ اردوغان نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ’جعلی بغاوت‘ کروائی تھی۔

آخر کار عدنان اوقتار کئی مقدمات میں سے ایک میں پھنس گئے۔ ان پر ’بچوں کے جنسی استحصال، خواتین کے ریپ، نابالغوں کے ساتھ جنسی تعلقات، بچوں کے اغوا، دھمکی اور بلیک میل‘ کے الزامات عائد کیے گئے۔ انہیں بالآحر جاسوسی، دھوکہ دہی اور مذہبی جذبات کو غلط استعمال کرتے ہوئے دھوکہ دہی، منی لانڈرنگ، دستاویزات کی جعل سازی، انسداد دہشت گردی اور انسداد اسمگلنگ قوانین کی مخالفت، بدنامی اور الزام تراشی، توہین، رشوت ستانی اور قانون کی مخالفت اور خواتین پر تشدد کے جرم میں جیل بھیجا گیا۔

پروفیسر عدنان اوقتار یا ہارون یحییٰ غالبا اپنی باقی زندگی جیل میں گزاریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی