براڈ شیٹ فیصلہ: نیب کو جرمانہ کن کیسز پر ہوا؟

2 کروڑ 15 لاکھ ڈالر بمع سود جرمانے کی اس رقم کا تعین کیسے کیا گیا اور جن کیسز کی بنیاد پر جرمانہ ہوا، ان کی تفصیلات کیا ہیں؟

2000 میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ ایسٹس ریکوری معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد پاکستانیوں کے دیگر ملکوں میں موجود غیر قانونی اثاثہ جات واپس پاکستان لے کر آنے میں معاونت کرنا تھا(تصاویر: اےایف پی)

17 دسمبر 2018 کو ثالثی عدالت کی جانب سے جاری کیے گیے فیصلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) /حکومت پاکستان کو غیر ملکی اثاثہ جات ریکوری فرم براڈشیٹ کو 2 کروڑ 15 لاکھ ڈالر بمع سود جرمانے کی ادائیگی کا کہا گیا۔ یہ معاملہ آج کل پاکستان کے سیاسی منظر نامے پرچھایا ہوا ہے۔

براڈ شیٹ کی جانب سے جاری کی گئی دستاویزات میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف دور کی حکومت اور نیب کی جانب سے اس ادارے کو شریف خاندان کی بدعنوانی کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس دوران کمپنی کے سی ای او کاوے موسوی سے مختلف شخصیات نے کب کب ملاقاتیں کیں اور اس دوران کیا گفتگو ہوئی۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے پیر کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ براڈ شیٹ کو جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں ہونے والی 'ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت' ہے۔

سرکاری پریس کانفرنس میں اور بھی بہت سی باتیں کی گئیں لیکن انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جرمانے کی اس رقم کا تعین کن کیسز کی بنیاد پر کیا گیا اور ان کیسز کی تفصیلات کیا ہیں؟

نیب براڈ شیٹ معاہدہ:

2000 میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ ایسٹس ریکوری معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد پاکستانیوں کے دیگر ملکوں میں موجود غیر قانونی اثاثہ جات واپس پاکستان لے کر آنے میں معاونت کرنا تھا۔ غیرقانونی جائیداد کی فہرست میں تقریباً 200 افراد کا تعین کیا گیا تھا جنہیں ٹارگٹ کرکے پیسہ واپس لینا تھا۔

معاہدے کے تحت نیب کی جانب سے ریکور کیے گئے پیسوں میں سے 20 فیصد پیسہ براڈ شیٹ کو ملنا تھا۔

ثالثی عدالت کے فیصلے کے مطابق براڈ شیٹ نے عدالت سے تین قسم کے کیسز پر پیسوں کی ادائیگی کی استدعا کی تھی:

  1. وہ پیسے جو کہ نیب نے ریکور کیے اور اس کے پاس ٹرانسفر کے لیے موجود ہیں
  2. وہ پیسے جو براڈ شیٹ کی کاوشوں سے حاصل کیے گئے
  3. وہ پیسے جو کہ نیب اور ’رجسٹرڈ ٹارگٹ‘ کے درمیان مصالحت کے بعد حاصل کیے گئے

معاہدے میں رجسٹرڈ ٹارگٹ سے مراد وہ افراد تھے جن کے اثاثہ جات معاہدے کے تحت براڈ شیٹ نے ریکور کروانے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2003 میں نیب کی جانب سے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ختم کیے جانے کے بعد براڈ شیٹ نے نیب کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا تھا۔

31 دسمبر 2020 کو ثالثی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے براڈ شیٹ کو 2 کروڑ 87 لاکھ روپے جرمانے کی مد میں ادا کیے۔ جرمانے کی اس رقم کا تعین کیسے کیا گیا اور جن کیسز کی بنیاد پر جرمانہ ہوا وہ کون سے کیسز تھے، ان کی تفصیلات فیصلے میں موجود ہیں۔

براڈ شیٹ نے عدالت سے استدعا کی تھی کی کہ نیب نے جن تین کیسز میں ریکوری کی ہے، اس میں سے 20 فیصد حصہ معاہدے کے مطابق انہیں دیا جائے اور جن کیسز میں ابھی تک نیب نے ریکوری نہیں کی مگر ریکوری ممکن ہے ان میں سے بھی براڈشیٹ کا 20 فیصد حصہ بنتا ہے۔

ان کیسز میں عدالت نے نیب کو براڈ شیٹ کو 2 کروڑ 51 لاکھ بمعہ سود جرمانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔ جرمانے میں سود کی رقم شامل کرنے کے بعد کل رقم 2 کروڑ 87 لاکھ بنتی ہے۔

کیسز کی تفصیلات:

جن کیسز کی بنیاد پر براڈ شیٹ نے حکومت پاکستان اور نیب سے پیسے حاصل کیے، ان کیسز کو فیصلے کی نظر میں دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

پہلی کیٹیگری میں وہ کیسز ہیں جو کہ براڈ شیٹ اور نیب کے درمیان معاہدہ ختم کیے جانے کے بعد رجسٹرڈ ٹارگٹ سے ریکور کیے گئے ہوں۔ اس کیٹیگری میں تین کیسز تھے، جن کی تفصیلات یہ ہیں:

  1. شان گروپ (48 ہزار ڈالر) اور سلطان لاکھانی (25 ہزار ڈالر)
  2. فوزی قاسمی (85 ہزار ڈالر)
  3. لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) زاہد علی اکبر (تین لاکھ 81 ہزار ڈالر)

دوسری کیٹیگری میں وہ کیسز ہیں جن میں معاہدہ ختم ہونے کے بعد پیسے کی ریکوری کا امکان ہے۔ ان کی تفصیلات یہ ہیں:

  1. آفتاب شیرپاؤ (دو لاکھ 10 ہزار ڈالر)
  2. جمیل انصاری (تین لاکھ 38 ہزار ڈالر)
  3. شریف فیملی (دو کروڑ پانچ لاکھ ڈالر)

اس کیٹیگری میں شامل افراد کے خلاف نیب کی جانب سے 2000 کی دہائی میں تحقیقات روک دی گئیں تھیں۔ ان رقوم کا تخمینہ عدالت نے کل اثاثہ جات، جو کہ ریکور کیے جا سکتے تھے، کا 20 فیصد حصہ لگایا ہے۔

ان تمام رقوم کی کل مالیت جن کا تعین ثالثی عدالت نے کیا ہے، 2 کروڑ 51 لاکھ بنتی ہے۔ اس رقم کی براڈ شیٹ کو ادائیگی تک پاکستان کو سود بھی ادا کرنا تھا۔

فیصلے کے مطابق اہم کیسز کی تفصیلات:

شریف فیملی:

ثالثی عدالت کے فیصلے میں شریف خاندان کے اثاثہ جات اور نیب کی ان کے خلاف کارروائی کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں جے آئی ٹی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ شریف خاندان کے کل اثاثہ جات کی مالیت 82 کروڑ ڈالر ہے اور اس مالیت میں لندن فلیٹس شامل نہیں، جن کی مالیت 130 لاکھ ڈالر ہے۔

آفتاب شیرپاؤ:

سابق وزیراعلیٰ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کا نام بھی ان کیسز کی فہرست میں آتا ہے، جن کے خلاف براڈ شیٹ کو ہدایات دی گئی تھیں۔

شان گروپ اور سلطان لاکھانی:

شان گروپ اور سلطان لاکھانی کے خلاف بینک قرضے پر ڈیفالٹ کرنے کے کیسز تھے اور ان کیسز کو ختم کرنے کے لیے بینکوں اور ان افراد کے درمیان مصالحت ہوئی تھی، جس میں نیب بھی پارٹی تھا۔ بینکوں کو پیسے کی واپسی بذریعہ نیب ہونا تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست