نوکری کرو یا گھر بیٹھو، طعنہ تو ملنا ہے عورتو!

’فلاں کی بیوی جاب کرتی ہے، فلاں کی بیٹی نوکری کر رہی ہے، تم تو صرف گھر ہوتی ہو، تمہارا کام ہی کیا ہے؟ تم سے گھر بھی ٹھیک نہیں چلتا؟‘

(اے ایف پی)

جدید دور میں زندگی عورتوں کے لیے مرد کی نسبت زیادہ مشکل ہے۔ 

آپ ایک طرف ان کی آزادی کا جھنڈا اٹھائے کھڑے ہیں دوسری طرف کام کا بوجھ ان پر ڈبل ہو چکا ہے۔ خواتین پاکستانی معاشرے میں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک ورکنگ وومن ہیں دوسری وہ جو سارا دن گھر سنبھالتی ہیں۔ وہ عورتیں جو ’صرف‘ گھر سنبھالتی ہیں پہلے ان کی بات کر لیں۔

’فلاں کی بیوی جاب کرتی ہے، فلاں کی بیٹی نوکری کر رہی ہے، تم تو صرف گھر ہوتی ہو، تمہارا کام ہی کیا ہے؟ تم سے گھر بھی ٹھیک نہیں چلتا؟‘ یہ ڈائیلاگ عموما وہ عورتیں بھی سنتی ہیں جنہیں ایم بی بی ایس ہونے کے باوجود گھر پہ بٹھایا جاتا ہے،  نوکری کی اجازت نہیں ہوتی اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ گھر داری کریں گی۔ 

ہم، مرد، جس دن گھر ہوتے ہیں، ہماری صبح کیسے ہوتی ہے؟ دیر تک سونا ہے۔ اٹھ کے بھی لیٹے رہنا ہے۔ واش روم سے واپس آ کے پھر لیٹنا ہے۔ منہ نہیں دھونا، سونے والے کپڑوں میں بستر پہ ناشتہ کرنا ہے۔ پراٹھے ظاہری بات ہے بیوی نے بنانے ہیں۔ پھر ٹی وی دیکھنا ہے، اخبار پڑھنا ہے یا موبائل پہ دیر تک بے مقصد انگوٹھا چلانا ہے۔ دو بجے کے بعد ’ضروری کام‘ سے نکلنا ہے۔ شام تک واپس آنا ہے۔ وقت ہوا تو بیوی بچوں کو باہر گھما لائے ورنہ پھر سے بستر میں لیٹ جانا ہے۔ شور کرنے پہ بچوں کو ڈانٹنا ہے۔ رات کا کھانا کوئی فرمائشی مشکل چیز بنوا کے کھانا ہے، پھر چائے پینی ہے، پھر ٹی وی یا موبائل دیکھتے دیکھتے سو جانا ہے۔

ہمارے خیال میں جو عورتیں گھر پہ ہوتی ہیں ان کا سارا دن ہماری طرح گزرتا ہو گا کیونکہ ان کی روز ’چھٹی‘ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے! 

سب سے زیادہ برا دن اس عورت کا ہوتا ہے جس کا ایک عدد یا اس سے زیادہ چھوٹے بچے ہوں۔ یہاں فرض کریں کہ بچے دو ہیں۔ ساری رات ایک دودھ مانگے گا تو دوسرے کو شو شو آئے گی۔ پہلے کا پیمپر لیک ہونے سے آنکھ کھلے گی تو اس کو پیک کرتے کرتے دوسرا جاگ جائے گا، دونوں جاگیں گے تو ان کو چپ بھی رکھنا ہے ورنہ آپ جاگ جائیں گے۔ وہ ایک ڈراؤنا خواب ہو گا۔ تو جس وقت دونوں پیس سوئیں گے تب وہ عورت سوئے گی۔ 

اب ایک عام دن شروع ہوا، چھ بجے ہیں۔ اگر دونوں اولادیں چھوٹی ہیں تو وہی دودھ اور پیمپر والی کہانی جاری ہو جائے گی، بڑے ہیں تو ان کے سکول کا ٹائم ہو گا۔ آپ نے دفتر بھی جانا ہے۔ جوائنٹ فیملی ہے تو ابا جی اور ماں جی کے ناشتے کا بھی وقت ہے۔ 

چھ ہاتھ ہوں اگر مرد کے تو وہ اس ٹائم کو ایسے تقسیم نہیں کر سکتا جیسے ایک عورت کرتی ہے۔ بچوں کا ناشتہ بھی بنے گا، وہ یونیفارم پہن کے تیار بھی کیے جائیں گے، اماں ابا جی کے لیے چائے سمیت سب چیزیں جائیں گی، آپ کی پتلون، قمیص، بنیان، موزہ بھی تیار مل جائے گا، جو آپ نے کھانا ہو گا وہ بھی ریڈی ملے گا ۔۔۔ ہو گا کس ٹائم میں؟ چھ سے سات یا ساڑھے سات؟ 

اس کے بعد شاید نو یا دس تک اس کے سکون کا وقت ہو گا (لیکن آٹھ سے نو میں کیا سکون ہو سکتا ہے؟ ) پھر سبزی، سودا، اگلے وقت کا کھانا، صفائی، دھونے والے کپڑے، دروازے پہ بجنے والی گھنٹیاں، سب چیزیں اکٹھے شروع ہو جائیں گی۔

آپ کو علم ہے کہ جس گھر میں آپ رہتے ہیں اس کی صفائی روزانہ کیسے ہوتی ہے؟ ٹماٹر ٹھیک نہ نکلیں اور دہی کم ہو تو سالن کیسے بنتا ہے؟ بچے سکول سے واپسی پہ بھوکے بیٹھے ہوں اور آٹا خمیرہ ہو جائے تو روٹی کیسے بنتی ہے؟ فریج پانچ سال استعمال کے باوجود نیا کا نیا کیوں نظر آتا ہے؟  بیڈ شیٹ کو فوم کے نیچے دبا کر بچھانا اکیلے بندے کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے، کبھی کوشش کی؟ میز پہ انگلی پھیر کے مٹی دکھانے کا ہم سب کو شوق ہے لیکن اندازہ ہے کہ وہ دوبارہ کتنی دیر میں جم جاتی ہے؟  فریزر ڈی فروسٹ کیسے ہوتا ہے؟ گھر کی بیل دن میں کتنی مرتبہ بجتی ہے؟ یہ سب اور ان کے ساتھ ڈیڑھ سو مزید کام گھر میں تب ہوتے ہیں جب آپ نوکری حلال کر رہے ہوتے ہیں۔ 

آٹھ گھنٹے بعد آپ کی شفٹ ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی شفٹ کوئی نہیں ہے۔ جب آپ گھر آئے تو ان کی نئی شفٹ چالو ہو جاتی ہے۔ بچوں کو روکنا ہے کہ شور نہ کریں، آپ کو روکنا ہے کہ ان پہ شور مت کریں، اماں ابا ساتھ ہیں تو انہیں بتانا ہے کہ دونوں شور نہیں کر رہے ’کھیل‘ رہے ہیں۔ پھر آپ کا چائے پانی، کھانا تیار کرنا ہے، پھر آپ کا پسندیدہ کرکٹ میچ ’شوق‘ سے دیکھنا ہے، پھر آپ کی رات پہ سونے کی کوشش کرنا ہے اور پھر بچوں کی جگار سے نمٹنا ہے۔ تو یہ ایک معمولی سا روزمرہ کا سین ہے ان عورتوں کا جو نوکری نہیں کرتیں، گھر پہ ہوتی ہیں۔

تو بات شروع ہوئی تھی کہ جو ورکنگ وومن نہیں ہے، ابھی اس کے لیے دو طعنے ہیں۔ ایک تو تم کام نہیں کرتی، دوسرا یہ کہ تم گھر بھی نہیں سنبھال سکتی۔ اب جو ورکنگ وومن ہے، جو کام کرنے والی ہے، اسے نوکری کر کے بھی کوئی ایوارڈ نہیں مل جاتا۔ وہ جاب کرے، گھر بھی سنبھالے۔ بات باریک ہے، غور کریں، سمجھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یعنی کام نہ کرے تو دوسری عورتوں کی مثال سامنے ہے کہ وہ کرتی ہیں تم نہیں کرتی لیکن اگر وہ کام کرے تو یہ کوئی خاص بات ہی نہیں ہے سرے سے۔ پھر جو بات سننے کو سپیشل والی ملتی ہے وہ یہ کہ ’فلاں کی بیوی جاب کرتی ہے، فلاں کی بیٹی نوکری کر رہی ہے، وہ بھی گھر سنبھالتی ہیں، تمہارا کام ہی کیا ہے؟ تم سے گھر بھی ٹھیک نہیں چلتا؟‘

حالانکہ تھکی ٹوٹی واپس آ کے ساری ہی عورتیں سب کچھ نمٹاتی ہیں لیکن وہ کسی کھاتے میں لکھا نہیں جاتا کیونکہ آپ کام لینے کے معاملے میں ایک ’پرفیکشنسٹ‘ ہیں۔ دوٹوک بات یہ ہے کہ ڈبل کام دنیا میں کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ اگر آپ نے کپڑے دھلوانے ہیں، کھانا بنوانا ہے، دو دو سال کے وقفے سے بچے پیدا کروانے ہیں، گھر کی سیوا کروانی ہے، اپنا سب کچھ وقت پہ تیار مانگنا ہے، میزیں چمکتی دیکھنی ہیں تو پھر نوکری کا طعنہ مت دیں۔

نوکری کروانی ہے تو پھر یہ سارے کام اول تو نہیں ہو سکتے اور اگر ہوں گے تو وہ کرنے والی کا آپ پر احسان ہے۔ یقین کر لیجیے کہ آپ ایک ہفتے اس روٹین پہ نہیں رہ سکتے جس پہ وہ عورت رہتی ہے جو نوکری بھی کرتی ہے اور گھر بھی پورا سنبھالتی ہے۔ یہ ناممکن ہے! اس کے بعد پوچھا جاتا ہے ’تم سے یہ بھی نہیں ہوتا؟‘

بڑی دیر سے ذہن میں آ رہا ہو گا کہ اس شدید مطمئن اور احمق کالم نگار کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اکثر گھروں میں اب ’میڈز یا ڈومیسٹک ہیلپ‘ ہوتی ہیں جو سب کام سنبھالتی ہیں۔ قسم اٹھوا لیں بھائی ان سے کام کروانا خود اپنی ذات میں ایک کام ہے۔ ان کا کھلارا آپ کو نظر نہیں آتا۔ یہ اس سے پوچھیں جو کام کو سپروائز کرتا ہے یا جس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ورکنگ وومن ہوں یا نان ورکنگ، ہفتے میں دو تین بار دونوں کا یہی پروگرام بنتا ہے کہ تھوڑی ہمت کر لیں اور میڈ کی بجائے خود کام نمٹا لیں، کھپنا برابر پڑتا ہے۔ 

اب پہلی لائن دوبارہ پڑھیں۔ پڑھ لی؟ زندگی مردوں کی نسبت کیوں مشکل ہے عورتوں کے لیے؟ 

اس لیے کہ اب، اس زمانے میں، انہیں اپنے آپ کو منوانا پڑتا ہے۔ اگر وہ ماڈرن گھر سے ہیں تو چاہے مرتی ہوں، نوکری اور گھرداری ساتھ ساتھ گھسیٹیں گی، اگر وہ روایتی گھر سے ہیں تو انہیں یہ فکر مار جائے گی کہ ہائے میری زندگی ضائع ہو گئی، میں نے کچھ بھی نہیں کیا، کاش میں اپنے خواب پورے کر سکتی۔

تو کل ملا کے اپنے پاس اس کا جواب یہی ہے کہ اے محترم عورت، خود پر اتنا بوجھ لادو جس میں تم زندگی انجوائے کر سکو۔ اگر نوکری کر کے بھی طعنے سننے ہیں اور گھر بیٹھ کے بھی تو اپنی طبیعت کے حساب سے فیصلہ کرو اور زندگی کو آگے بڑھاؤ۔ بدلنے والا ادھر کچھ نہیں ہے، بدلنا بس اپنے آپ کو ہی ممکن ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ