امریکہ کا سعودی عرب میں مزید اڈوں پر غور

ایک رپورٹ میں فوجی کمانڈروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کو مزید اختیارات فراہم کرنے کے لیے ایک سال سے اس اقدام پر غور کیا جا رہا ہے۔

20 فروری  2020 کی اس  تصویر میں امریکی فصائیہ کا ایک اہلکار پیٹریاٹ میزائل کے قریب الخرج کے علاقے میں کھڑا ہے (اے پی)

 

ایران کے ساتھ تناؤ میں اضافے کے بعد امریکی فوج بحیرہ احمر میں یانبو کی بندرگاہ اور ملک کے شہر تبوک اور طائف میں دو فضائی اڈوں کو استعمال کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اسے ’منصوبہ بندی‘ قرار دیتے ہوئے امریکہ فوج کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے ہی سعودی عرب کی یانبو بندرگاہ سے، جو تیل کی پائپ لائنز کی وجہ سے کافی اہمیت رکھتی ہے، زمین کے راستے ساز وسامان کی ترسیل کا تجربہ کر لیا ہے۔

امریکی نیوی کے کیپٹن بل رابن جو مرکزی کمانڈ کے ترجمان ہیں، کا کہنا تھا کہ ان مقامات کا جائزہ 29 ستمبر 2019 کے سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد سے ایک سال سے جاری ہے۔

ریاض گذشتہ ہفتے بھی ایک پراسرار حملے کی زد میں آیا تھا، جس کی بائیڈن نے مذمت کی تھی۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ میزائل تھا یا ڈرون حملہ۔ یمن میں حوثی باغیوں نے، جنہوں نے اس سے قبل ریاض کو نشانہ بنایا ہے، اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

عراق میں ایک نامعلوم گروپ ’سچ وعدہ بریگیڈ‘ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔  

بحیرہ احمر کے کنارے تبوک اور طائف شہر میں اس بندرگاہ اور ہوائی اڈے کے استعمال سے ایک ایسے وقت میں، جب اس علاقے کو حوثی ملیشیا اور باغیوں نے نشانہ بنایا ہے، امریکی فوج کو ان اہم آبی گزرگاہوں میں مزید آپشن ملتے ہیں۔

قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت بعض خلیجی عرب ریاستیں خطے میں امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کرتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اڈے 1991 کی جنگ کے بعد خلیج عرب میں قائم ہوئے تھے، جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کویت سے عراقی افواج کو بھگا دیا تھا۔

ستمبر 1998 میں ایک سب سے زیادہ وسیع حملہ سعودی عرب میں آرامکو تیل کی سہولت کے خلاف تھا۔ حوثیوں نے ڈرون اور میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کا منبع ’ایران‘ تھا جبکہ تہران نے اس رپورٹس کی تردید کی تھی۔

ان حملوں کے بعد سعودی عرب سمیت متعدد یورپی اور علاقائی ممالک کی شراکت سے خلیج عرب میں امریکہ کی زیرقیادت بحری سلامتی اتحاد تشکیل دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل ڈیفنس نیوز ایجنسی نے اطلاع دی تھی کہ امریکہ اور سعودی عرب، سعودی ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں تک رسائی پر غور کر رہے ہیں جن کا مقصد ایران کے خطرات سمیت دیگر خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔

نیوز سائٹ نے فوجی کمانڈروں کے حوالے سے بتایا کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کو مزید اختیارات فراہم کرنے کے لیے ایک سال سے اس اقدام پر غور کیا جا رہا ہے۔

ایران کے کچھ عہدیداروں نے امید ظاہر کی تھی کہ امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی سعودی عرب کے ساتھ امریکی فوجی تعاون محدود ہوگا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اڈوں کا استعمال کیا ہے، لیکن جیسے ہی ایران کی میزائل صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ان اڈوں کو لاحق خطرہ بڑھ رہا ہے۔

سینٹ کام کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے گذشتہ پیر یانبو بندرگاہ کا دورہ کیا تھا۔ جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ ’اگر ایران کے ساتھ فوجی تنازعہ ہوتا ہے تو خطے کا پانی تنازعے کا مرکز بن جائے گا اور ایسی صورت میں بحیرہ احمر کے مغرب جیسے مقامات پر فوجیں رکھنا بہتر ہوگا۔‘

خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی حکام نے اس بارے میں موقف ابھی نہیں دیا ہے۔

ایرانی حکام نے ہمیشہ خطے میں امریکی فوج کی موجودگی کی مذمت کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا