ایک نظریہ ساز اور رجحان ساز پولیس افسر سے ملیے

ہماری پولیس عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی، لیکن ایک ایسے پولیس افسر بھی ہیں جنہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عملی قدم اٹھائے ہیں۔

خدا بخش اعوان کئی کتابوں کے مصنف ہیں (نعیم ناز)

پولیس سروس آف پاکستان میں کئی ایسے افسر بھی آئے جنہوں نے محدود وسائل اور لامحدود مسائل کے باوجود پولیس کا امیج بدلنے کی اپنی سی کوشش کی اور اپنی انقلابی سوچ اور سکیموں کو عملی جامع پہنانے کے لیے پولیس کو ذہنی طور پر تیار کیا۔

انہی افسروں میں سے ایک ملک خدا بخش اعوان بھی ہیں جنہوں نے پولیس پبلک اعتماد کی بحالی کے لیے جو ہمہ گیر تحریک شروع کی، اسے کمیونٹی پولیسنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ انہوں نے بہاول پور میں بطور آر پی او/ڈی آئی جی اپنی تعیناتی کے دوران کمیونٹی پولیسنگ کے نقطۂ نگاہ سے جامع منصوبہ بندی کی، عوام الناس کی مشاورت سے باہمی حفاظت کے نظام کا منفرد تجربہ کیا اور تھانوں سے محروم علاقوں کے عوام کے مسائل کے حل اور ان کی آسانی کے لیے ’موبائل پولیس سٹیشن‘ کا عملی نظریہ پیش کیا۔

 اپنی بہاول پور میں تعیناتی کے دوران ملک خدا بخش اعوان نے عوام اور پولیس کو ہم قدم کرنے اور ان کے درمیان اشتراک عمل بڑھانے کے لیے سٹیزن پولیسنگ لائزان کمیٹی بنائی اور پورے ریجن میں عوام کی سہولت کے لیے شکایت سیل بنائے تاکہ ہر شخص باآسانی اپنی شکایت درج کرا سکے۔ انہوں نے علمائے کرام اور دانشوروں سے مسلسل رابطہ رکھا تاکہ ہر سطح کے مسائل کو مل جل کر حل کیا جا سکے۔ اور لوگوں کی پرانی دشمنیوں کے خاتمے کے لیے مشاورتی عمل کو تیز کیا جس کے نتائج انتہائی خوشگوار برآمد ہوئے۔ عوام کا پولیس پر جب اعتماد بڑھا تو سماج دشمن عناصر کے خلاف عوام اور پولیس کے درمیان اتحاد قائم ہو گیا۔

 2007 میں ملک خدا بخش اعوان کی کمیونٹی پولیسنگ کے موضوع پر انگریزی زبان میں ایک کتاب ’بینوولنٹ پولیسنگ‘ (Benevolent Policing) شائع ہوئی جسے پولیس کے نظام کے لیے ایک گراں قدر دستاویز قرار دیا گیا۔ اس کتاب میں دنیا بھر میں رائج مختلف پولیس نظاموں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور مزید برآں اس سسٹم میں موجود خامیوں اور خوبیوں کی نشاندہی، معاشی، معاشرتی اور طبقاتی تناظر میں سیر حاصل تجزیے کتاب کی افادیت کو واضح کرتے ہیں۔ مذکورہ کتاب میں خاص طور پر پاکستانی پولیس سسٹم پربے لاگ تجزیہ، اس شعبے کو آئندہ پیش آنے والے حالات و مسائل، ان کا درست ادراک اور ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ملک خدا بخش اعوان نے اپنی تصنیف میں پولیس کے حالات کار، استعداد اور سہولتوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ملک خدا بخش اعوان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پولیس کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ پولیس کا بنیادی مقصد لوگوں کی خدمت، ان کا تحفظ اورعزت نفس کا احترام ہے۔

وہ اس بات کو برملا تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس ایکٹ 1861 برصغیر پر قابض انگریزوں کا وضع کردہ ہے، جس کا مقصد انگریز کے اقتدار کا تحفظ اور وفاداری تھا تاکہ عوام غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں اور اگرآزادی کی تحریک کہیں بھی اٹھے تو اسے طاقت کے زور پر کچل دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پولیس کو اپنا دشمن اور انگریز کی پالتو فورس تصور کرنے لگے جس کی وجہ سے نفرتیں بڑھنے لگیں، پولیس اور عوام کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوتا گیا۔

ملک خدا بخش اعوان لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ملک کے حالات، تقاضے اور ضروریات یکسر تبدیل ہو گئیں لیکن پولیس کی ذمہ داریوں اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، جس کی وجہ سے پولیس انگریزی دور کی طرزپر ہی کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نفرتوں کا عالم بھی ویسا ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ آزادی سے قبل پولیس انگریز کے لیے کام کرتی تھی، آزادی کے بعد یہ صرف ہماری حکومتوں کے لیے کام کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آج عوام آزاد پاکستان کے شہری ہیں، آزاد ملک کی اپنی پولیس کا آزاد ماحول میں کردار طلب کرنا ان کا حق ہے، ایسی پولیس جو عوام کے جان و مال اور عزت وآبرو کی محافظ ہو تاکہ کوئی زبردست زیردست پر حاوی نہ ہو سکے، کوئی وڈیرہ اور جاگیر دار وسائل کے زور پر کمزور عوام کا استحصال نہ کر سکے۔

ملک خدا بخش اعوان کے مطابق گذشتہ برسوں کی آئینی و سماجی شکست و ریخت کی وجہ سے معاشرے میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ملک کو منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا روگ لگا۔ تخریب کاری میں اضافہ ہوتا گیا۔ نسلی ولسانی عصبیت نے ملک کو زنجیروں میں جکڑ لیا۔ فرقہ واریت کا عفریت اچانک نمودار ہو کر چھا گیا۔ طلبہ میں بے راہ روی کے ناسور نے جنم لیا، دوسری طرف ان تمام معاشرتی برائیوں اور فرقہ واریت سے نمٹنے کے لیے پولیس کا وہی ادارہ ہے جس کی بنیاد انگریز رکھ کر گیا تھا، یعنی کم سے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ کام لینااور اسے حکومت کے ادارے کے طور پر استعمال کرنا، جس کی وجہ سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس دوبارہ جڑپکڑنے لگااور قانون شکنی بڑھنے لگی۔

 ملک خدا بخش اعوان اپنی پولیس کا دیگر ممالک کی پولیس سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برطانیہ کے علاوہ جاپان، سنگاپور، ملائشیااور دیگر ممالک میں بھی ہر جگہ پولیس کی ایک ہی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ وہاں پولیس قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے عوام اپنی پولیس سے نالاں ہونے کی بجائے اسے اپنا مددگار، غمگسار اور حقیقی معنوں میں محافظ تصور کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔

ملک خدا بخش اعوان نے یہ نتائج بیرونِ ملک دوروں کے دوران وہاں کی پولیس کے نظام کی گہرے مطالعے سے اخذ کیے۔ انہوں نے اس بات کا خاص طور پر مطالعہ کیا کہ وہاں کی پولیس کن وجوہات کی بناپر اپنے عوام میں ہر دلعزیز ہے۔ وطن واپس آ کر انہوں نے اپنے مشاہدات و تجربات کو فیلڈ میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وطن عزیز محبت اور امن کا گہوارہ بن سکے۔ ان مشاہدات کا نچوڑ ان کی کتاب میں موجود ہے۔

ملک خدا بخش نے صرف نظری پہلوؤں پر توجہ نہیں کی، بلکہ انہوں نے یہ سارا نظام رائج کر کے بھی دکھایا۔ انہوں نے بہاولپور میں کمیونٹی پولیسنگ اور موبائل پولیس سٹیشن کا نظام رائج کیا جس سے نہ صرف جرائم میں خاطر خواہ کمی واقعی ہوئی بلکہ لوگوں کا پولیس پر اعتماد بھی بڑھا۔

ملک خدا بخش اعوان کی دوسری تصانیف میں خودحفاظتی کے طریقے، جرائم سے بچاؤ کی تدابیر اور جرائم کی بیخ کنی کے نفسیاتی اسباق شامل ہیں۔ ان کی کتب ان کے پیشہ وارانہ دور کے مختلف مراحل کی ہیں جن کے اندر ناصحانہ تلقین، عالمانہ رنگ، خطیبانہ طرزبیان اور تاریخی حوالہ جات کا منطقی اسلوب چھلکتا ہے، ملک خدا بخش اعوان کا دل قوم کے درد سے سرشار ہے۔ وہ قوم کے تمام امراض کا علاج کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کو وہ امن سے مشروط قرار دیتے ہیں اور امن کی بحالی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کارلانے کے متمنی ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ بہاولپورمیں کمیونٹی پولیسنگ اور موبائل پولیس سٹیشن کا انہوں نے جو کامیاب تجربہ کیا اسے دوسرے ضلعوں میں رائج کیا جائے، اور اگر مثبت نتائج ملیں تو پھر اگلے مرحلے میں اسے پاکستان بھر میں متعارف کروایا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ