مردان کے چمن لال جنہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد بنائی

ایک مشہور مقامی ہندو جاگیردار کی تعمیر کردہ ’چمن مسجد‘، جہاں مسلمان آج بھی نماز ادا کرتے ہیں۔

تنگ گلیوں اور پرانے گھروں کے درمیان تقریباً 10 مرلے زمین پر قائم 'چمن مسجد'  کی بنیاد رکھنے والے چمن لال کو کیا پتہ کہ ان کی بنائی مسجد اب پکی ہو چکی ہے، جس میں سینکڑوں لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی میں اس مسجد کو بنانے کی تاریخ معلوم نہیں۔ تاہم اس محلے کے  واحد حیات بزرگ 115 سالہ حاجی پائندہ خان مسجد میں تقریباً 40 سال تک مؤذن کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ پائندہ ضعیف ہونے کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتے البتہ ان کی یاداشت کافی اچھی ہے۔ ہم پائندہ سے ملنے تخت بھائی ان کے گاؤں گئے تو وہ چارپائی پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے کہا ’میں چل پھر نہیں سکتا، باقی اللہ کا شکر ہے، بالکل ٹھیک ہوں۔‘

جب حاجی پائندہ سے چمن مسجد کی تاریخ جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں بہت سے ہندو  رہتے تھے اور تقریباً تخت بھائی کی آدھی زمینیں ہندؤں کی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان ہندوؤں میں ایک چمن لال تھے، جو ان کے محلے دار اور علاقے میں ایک با اثر جاگیر دار تھے، ان کے گھر میں فقیر یعنیٰ نوکر بھی رہتے تھے۔

پائندہ کے مطابق ’انہی فقیروں کے لیے گھر کے بالکل سامنے چمن نے اپنی زمین پر پتھروں سے ایک کچی مسجد تعمیر کی، جہاں مسلمان نماز پڑھتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ خود اس محلے میں 1946 میں ضلع دیر سے آئے اور ان کے آنے سے تقریباً 10 سال پہلے اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی، پہلے یہ مسجد ’چمن کلے‘ کے نام سے مشہور تھی، جس کا نام اب بدل کر  ’اللہ اکبر‘ مسجد  ہو چکا ہے۔ ’جب ہم یہاں آئے تو آٹھ، دس سال بعد میں نے مقامی لوگوں اور دوستوں سے چندہ کر کے اس مسجد کو پکا کرایا۔‘پائندہ کے مطابق چمن مقامی لوگوں میں بہت مقبول تھے اور ہر کسی کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے۔’میں خود راستے میں ان سے ملتا رہتا لیکن 1947 میں تقسیم کے بعد وہ بھارت چلے گئے۔‘

مقامی سکول میں استاد حسن المعاب کا تعلق اسی محلے سے ہے جہاں پر چمن مسجد قائم ہے۔ انھوں نے چمن لال کے بارے میں اپنے بڑوں سے بہت کچھ سنا ہے۔حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چمن کے والد کا نام گنگا بشگرام تھا اور تخت بھائی میں ان کی منڈیاں تھیں، جہاں گڑ وغیر ہ کی تجارت ہوتی تھی اور آج بھی یہ منڈیاں 'گنگے' کے نام سے مشہور ہیں۔

’چمن لال نے جو مسجد تعمیر کی تھی وہ ایک کمرے پر مشتمل تھی۔ان کے تین بھائی تھے۔ دوسرے بھائی کا نام ٹامو اور تیسرے کا راجا تھا، اسے محلے کے قریب ایک اور جگہ پر ان کے دادا بوٹا مل رہتے تھے، جن کی وجہ سے وہ محلہ بوٹا محلے کے نام سے مشہور ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن سے جب پوچھا گیا کہ کیا چمن لال کی اب کوئی نشانی باقی ہے تو انہوں نے بتایا کہ  وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نشانیاں ختم ہو گئیں، تاہم ’ہم نے بڑوں سے سن رکھا ہے کہ اس مسجد کے قریب ایک سکول ہے جو پہلے چمن لال کی رہائش گاہ تھی اور یہیں ان کے والد کی سمادھی بنائی گئی، جسے بعد میں لوگوں نے مسمار کر دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ چمن لال 1952 میں پاکستان آئے تھے اور انھوں نے گلہ کیا تھا کہ ان کے والد کی یادگار کو مقامی لوگوں نے مسمار کیا۔اسی مسجد سے متصل آج کل ایک سکول قائم ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق سکول  کی زمین بھی چمن لال کی تھی اور یہ ان کی رہائش گاہ  تھی جو بعد میں سرکاری سکول میں تبدیل کر دی گئی۔

تاہم سکول کے پرنسپل خورشید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ بھی بزرگوں سے یہی سنتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے اس بات کے کوئی ثبوت نہیں دیکھے۔انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک تاریخی سکول ہے، جس میں 1935 میں پرائمری سطح پر تعلیم شروع ہوئی اور 1952 میں اس کو مڈل سکول کا درجہ دیا گیا پھر 1970 میں یہ ہائی سکول بن گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بہت کوشش کی کہ چمن لال کی تعمیر کی گئی مسجد یا ان کی پرانی رہائش گاہ کی تصاویر حاصل کر سکے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق حاجی پائندہ خان اور قریبی محلے میں ایک اور سو سالہ بزرگ کو ہی اس مسجد کی تاریخ کا پتہ ہے، باقی اس دور کے لوگ اب دنیا میں نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان