لاہور چڑیا گھر کے تین جانوروں کو آسان موت دینے کی تجویز

لاہور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ تین جانوروں کو آسان موت دینے (یوتھنائز کرنے) پر غور کر رہی ہے۔

چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق  اس سات سال  مادہ زیبرا کو جوڑوں کا شدید مسئلہ ہے (سکرین گریب)

لاہور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ تین جانوروں کو آسان موت دینے (یوتھنائز کرنے) پر غور کر رہی ہے۔

ٹائیگر سیم، بھورا بھالو اور مادہ زیبرا، یہ وہ تین جانور ہیں جن کے حوالے سے چڑیا گھر انتظامیہ کا خیال ہے کہ ان کی عمر اور بیماریوں کا اب کوئی علاج نہیں لہٰذا انہیں یوتھنائز کر دیا جائے۔

چڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹائیگر کا پچھلا دھڑ مفلوج ہو چکا ہے، اب وہ نہ لوگوں کی تفریح کے لیے باہر نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ افزائش نسل کے قابل ہے۔ بھورے بھالو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اسے 2015 میں چڑیا گھر انتظامیہ نے لاہور کے ایک سیاسی جلسے سے ریسکیو کیا تھا، اس وقت بھی اس کی بینائی کمزور تھی مگر اب وہ بالکل اندھا اور بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔

سات سال کی مادہ زیبرا کے بارے میں کرن نے بتایا کہ اس کو جوڑوں کا شدید مسئلہ ہے اور اسے چلنے پھرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی ان جانوروں کو آسان موت دینے کی صرف تجویز دی گئی ہے، لیکن حتمی فیصلہ چڑیا گھر کی انتظامی کمیٹی کرے گی جس کے بعد سیکریٹری وائلڈ لائف اس کی باقاعدہ اجازت دیں گے۔

کرن کے مطابق پہلے بھی چڑیا گھر میں کچھ جانوروں کے حوالے سے ایسی تجاویز دی گئی تھیں لیکن ان پر عمل نہیں ہو سکا کیونکہ وہ عمر رسیدہ جانور کسی فیصلے سے پہلے ہی مر گئے۔

انہوں نے بتایا کہ لاہور سفاری چڑیا گھر میں کچھ عرصہ قبل شیروں کو آسان موت دی گئی تھی۔ ’عالمی سطح پر یوتھنائزیشن جانوروں کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی کی جاتی ہے لیکن یہاں ان جانوروں کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے گا کیونکہ یہ ایک زندگی کا معاملہ ہے اور (ہر) زندگی اہم ہے۔‘ انہوں نے امید ظاہر کی جلد ان جانوروں کو آسان موت دینے کی اجازت مل جائے گی۔

دوسری جانب لاہور چڑیا گھر کی اس تجویز پر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جانوروں کے حقوق کے لیے ’جے ایف کے‘ نامی تنطیم چلانے والی ضوفشاں انوشے نے انڈپینڈنٹ اردو سئ گفتگو میں دعویٰ کیا کہ دراصل چڑیا گھر انتظامیہ کے پاس سہولیات نہیں، یہ جانوروں کی بیماریوں کی تشخیص ہی نہیں کر سکتے اور نہ ان کے پاس علاج ہے۔

’اسلام آباد کے بھالوؤں کے دانت خراب ہو چکے تھے، وہ شدید تکلیف میں تھے اور انہیں (انتظامیہ کو) معلوم ہی نہیں ہوا۔ اسلام آباد چڑیا گھر والوں نے بھی ان بھالوؤں کو ابدی نیند سلا دینا تھا اگر فور پاز والے انہیں اپنے ساتھ بیرون ملک نہ لے جاتے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چڑیا گھروں میں جانوروں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، اسی لیے یہ بند ہو جانے چاہییں۔ ’گذشتہ دنوں شیر کے جو بچے کرونا سے مرے ان کے حوالے سے بھی چڑیا گھر انتظامیہ نے غلط تشخیص کی اور اس کے بعد ان کے نہ کرونا ٹیسٹ کروائے نہ ہی ان کی لاشوں کے حوالے سے کچھ بتایا کہ وہ کہاں گئیں کیونکہ کرونا سے مرنے والوں کو دفنانے کے ایس او پیز ہوتے ہیں۔‘

 

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہو سکتا ہے چڑیا گھر انتظامیہ نے وہ بچے بیچ دیے ہوں، اس لیے یہ سب (چڑیا گھر) بند ہو جانے چاہییں اور یہاں موجود جانوروں کو ایسی جگہ بھیج دیا جانا چاہیے جہاں یہ قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ چھ برس میں چڑیا گھر میں ایک ہزار سے زائد جانور ’صرف انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے مرے۔‘

ان الزامات پر کرن سلیم نے ردعمل میں کہا کہ چڑیا گھر انتظامیہ جن جانوروں کو ریسکیو کرتی ہے ان کے لیے یہ جگہ جنت سے کم نہیں، اگر وہ باہر ہی مر جائیں تو کسی کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ چڑیا گھر کے وہ جانور بیچے جاتے ہیں جو سرپلس ہوں اور اس کی اجازت حکومت اور سیکریٹری دیتے ہیں.’یہ جانور صرف ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جن کے پاس انہیں رکھنے کا لائسنس ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ باتیں کرتے ہیں وہ کبھی یہاں آکر دیکھیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ایسے جانوروں کے حقوق کے لیے باتیں کرنے والوں کی باتوں پر تبصرہ کرنا بیکار ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو