یکساں قومی تعلیمی نصاب: نجی سکول والدین کو خبردار کرنے لگے

لاہور کے ایک معروف نجی سکول نے والدین کو ایک خط میں خبردار کیا ہے کہ یکساں قومی تعلیمی نصاب یعنی سنگل نیشنل کریکلم کو اپنانے کے بعد سکول کے لیے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا مشکل ہوگا۔

پریپ سے پانچویں جماعت تک یکساں نصاب کا اطلاق  تعلیمی سال 22-2021  میں ہو جائے گا(فائل تصویر: اے ایف پی)

گل زمران کے دو بچے لاہور کے ایک معروف نجی سکول میں پڑھتے ہیں۔ چند روز قبل انہیں سکول انتظامیہ کا ایک انتباہی خط موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’یکساں قومی تعلیمی نصاب یعنی سنگل نیشنل کریکلم (ایس این سی) کو اپنانے کے بعد سکول کے لیے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا چیلنجنگ ہوگا۔‘

خط میں والدین کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت پاکستان کے ایس این سی نظام کا اطلاق پریپ سے پانچویں جماعت تک آئندہ آنے والے تعلیمی سال 22-2021 کے لیے ہوگا جبکہ چھٹی سے آٹھویں جماعت تعلیمی سال 23-2022 اور نویں سے بارہویں جماعتیں تعلیمی سال 24-2023 میں اس نظام کا حصہ بن جائیں گی۔

اس خط میں مزید درج ہے کہ سکول میں بچوں کے لیے صرف وہی 30 ماڈل کتابیں استعمال ہوں گی، جن کی اجازت حکومت دے گی۔ سکول انتظامیہ کو کوئی دوسری کتاب نصاب میں شامل کرنے کے لیے پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ (پی سی ٹی بی) سے اجازت لینا ہوگی، جس کا طریقہ کار فی الحال وضع نہیں کیا گیا۔

والدین کو یہ بھی بتایا گیا کہ سکول انتظامیہ ایس این سی کی تائید کرتی ہے لیکن حکومت نے اس کا اطلاق ملک بھر کے نجی سکولوں پر بغیر کسی پائلٹ ٹیسٹنگ کر دیا ہے۔ خط کے مطابق: ’سکول کا نیا تعلیمی سال اگست سے شروع ہوتا ہے جبکہ نصاب کی تیاری اور اساتذہ کے تربیتی پروگرام فروری، مارچ سے شروع کر دیے جاتے ہیں۔‘

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ابھی تک سکول انتظامیہ کو نمونے کے طور پر کوئی کتابیں فراہم نہیں کی گئیں۔ پی سی ٹی بی کے مطابق نمونے کے طور پر کتابیں سکولوں کو مئی میں ملیں گی۔

خط کے مطابق ایس این سی کے تحت اب انگلش، سائنس اور ریاضی کی ماڈل کتابیں انگریزی زبان جبکہ اردو، معلومات عامہ، معاشرتی علوم اور اسلامیات اردو زبان میں ہوں گی۔

خط میں تمام ضروری سرکاری ای میل ایڈریسز، جن میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا ای میل ایڈریس بھی شامل ہے، درج ہیں۔ والدین سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اس نئے طرز تعلیم کے حوالے سے ان ای میل ایڈریسز پر اپنے تحفظات بھیج دیں۔

گل اس خط کو پڑھنے کے بعد سے پریشان ہیں، جن کی بیٹی دوسری جماعت میں جانے والی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے گل زمران نے بتایا: ’ہمیں سکول انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ تو کچھ نہیں کرسکتے لیکن والدین حکومت پر دباؤ ڈالیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی پڑھائی کا میڈیم تبدیل کرنے سے مشکل ہو گی، بچے سمجھ نہیں پائیں گے اور انہیں بیک گیئر لگ جائے گا۔

گل زمران کے مطابق: ’بیشک تعلیمی میدان میں ٹاپ کرنے والے بیشتر بچوں کا تعلق سرکاری سکولوں سے ہوتا ہے لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب یہ بچے ایف ایس سی میں جاتے ہیں اور نصاب مکمل طور پر اردو سے انگریزی میڈیم میں چلا جاتا ہے تو وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔‘

دوسری جانب لاہور کے ایک نجی سکول کی پرنسپل نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمیں فکر ہے کہ جو بچے شروع سے تمام مضامین انگریزی میں پڑھتے آئے ہیں ان کے لیے اس تبدیلی کو قبول کرنا اور اس کے مطابق چلنا مشکل ہوگا۔‘

’مجھے ایس این سی پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ حکومت ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرنا چاہ رہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ آپ جس زبان کو اپنانا چاہ رہے ہیں اس کے لیے کیا آپ کے پاس کتابوں اور بچوں کے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم ہم نصاب کی اچھی کتابوں کا اردو ترجمہ کر لیں۔‘

مذکورہ پرنسپل کے خیال میں حکومت اردو کی جو کتاب پڑھا رہی ہے اس کا معیار بہت خراب ہے اور اگر باقی کتابیں بھی اسی معیار کی ہوئیں تو ہم بچوں کے ساتھ زیادتی کریں گے۔

اس حوالے سے آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے کہا کہ صوبہ سندھ نے ایس این سی کو اپنانے سے انکار کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی بھی تیاری نہیں، صوبہ پنجاب نے نوٹیفیکیشن تو جاری کردیا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو پائے گا کیونکہ مارکیٹ میں کتابیں نہیں۔

اسے ایک ناکام منصوبہ قرار دیتے ہوئے کاشف مرزا نے کہا: ’ایک ماہ کے اندر کتابوں کی ڈرافٹنگ، چھپائی، ان کا این او سی جاری ہونا اور پھر انہیں مارکیٹ تک پہنچانا ناممکن ہے۔ یہ نظام تعلیم سنگل ہے نہ نیشنل کیونکہ او لیول والوں سے کہا گیا کہ وہ اس سے باہر ہیں، مدارس والوں کو تین سال کا روڈ میپ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اجازت دے دی گئی کہ نجی سکول پی سی ٹی بی کی کتابوں کے علاوہ اگر کوئی اور کتاب پڑھانا چاہیں تو وہ ہم سے اجازت لے لیں، جس کے بعد یہ سنگل نیشنل تو نہ رہا۔‘ 

دوسری جانب ایس این سی کے حوالے سے تحفظات پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’دراصل چند بڑے سکول، جو انگریزی زبان پر پیسے بناتے ہیں، انہیں ایس این سی سے مسئلہ ہو رہا ہے جبکہ بیشتر نجی سکولوں کو کوئی مسئلہ نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس نظام تعلیم کے تحت اردو ایک زبان جبکہ اسلامیات ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جائے گی، باقی مضامین کے لیے ہم ابھی طے کر رہے ہیں کہ کیا زبان رکھی جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس یکساں نظام تعلیم کا اطلاق پنجاب، کے پی، کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام مدارس، نجی اور سرکاری سکولوں میں شروع کر دیا جائے گا۔ سندھ کا معاملہ چونکہ سیاسی ہے اس لیے وہاں ایس این سی کے حوالے سے مسئلہ آ رہا ہے لیکن میری سعید غنی سے بات ہو گئی ہے، ان کے ساتھ بھی ہم جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔‘

شفقت محمود کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں موسم کی وجہ سے تعلیمی سال دیگر صوبوں کی نسبت مختلف وقت میں شروع ہوتا ہے، اس لیے وہاں بھی اس کا اطلاق جلد ہو جائے گا۔

وزیر تعلیم نے مزید بتایا کہ ’آٹھویں جماعت کے بعد نجی سکولوں کے بچے اپنی مرضی سے او لیول میں جانا چاہیں تو وہ جا سکیں گے، اس پر انہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی البتہ سرکاری سکولوں میں ایف اے تک تعلیمی نصاب یکساں ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس