انتظار ہے کہ بچے پورا ہفتہ سکول جائیں: والدین

وفاقی حکومت کے یکم مارچ سے سکولوں کو پورا ہفتہ کھولنے کے فیصلے کو صوبہ سندھ نے مکمل طور پر ماننے سے انکار کردیا ہے جبکہ پنجاب میں اس پر جزوی عمل ہو رہا ہے۔

وفاقی حکومت نے  ملک بھر کے تمام سکولوں کو یکم مارچ سے کرونا   وائرس سے پہلے والے معمول پر واپس لانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ( اے ایف پی)

وفاقی حکومت نے چند روز قبل ملک بھر کے تمام سکولوں کو یکم مارچ سے کرونا (کورونا) وائرس سے پہلے والے معمول پر واپس لانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے تحت ملک بھر کے نجی و سرکاری سکولوں میں طلبہ ہفتے میں پانچ یا چھ دن سکول جائیں گے۔

اس نوٹیفکیشن کو ماننے سے صوبہ سندھ نے مکمل طور پر انکار کر دیا اور صوبائی محکمہ تعلیم نے 50 فیصد پالیسی کو ہی جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ صوبے کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں نے والدین کو اتوار کو پیغام بھیجا کہ وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد پیر سے صوبے بھر میں 100 فیصد بچے سکول آئیں گے اور حکومت کی جانب سے بتائی گئی کرونا وبا سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کرنا لازمی ہوگا۔

اس پیغام کے چند گھنٹوں بعد وزیرتعلیم سندھ سعید غنی نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ کرونا وبا تاحال ختم نہیں ہوئی ہے، اس لیے احتیاط لازمی ہے اور صوبے کے تعلیمی اداروں میں 50 فیصد پالیسی کو جاری رکھا جائے گا، جس کے بعد سکولوں نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ 50 فیصد پالیسی جاری رہے گی۔ 

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع ایک نجی سکول کی ہیڈ مسٹریس رقیہ اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو  کے نمائندے امر گرڑو کو بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی الگ الگ پالیسوں کی وجہ سے سکولوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ’والدین بار بار ٹیلی فون کرکے پوچھ رہے ہیں کہ ان کے بچے اب ریگولر آئیں گے کہ نہیں۔‘

دوسری جانب صوبہ پنجاب نے وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد اگرچہ اس حوالے سے عمل درآمد شروع کردیا، تاہم سات اضلاع کے حوالے سے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا کہ لاہور، گجرات، ملتان، رحیم یار خان، سیالکوٹ، راولپنڈی اور فیصل آباد کے سکولوں کو فی الوقت پہلے والے طریقہ کار یعنی ہر متبادل دن میں 50 فیصد طلبہ کی بنیاد پر ہی چلایا جائے گا اور ان اضلاع کے تمام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل بحال کرنے کا فیصلہ 31 مارچ کے بعد کیا جائے گا۔

وزیر تعلیم پنجاب مراد راس نے اس حوالے سے کی گئی ٹویٹ میں آگاہ کیا کہ نوٹیفکیشن میں جو اضلاع درج ہیں وہاں کے نجی و سرکاری تمام سکول کرونا کے سبب یکم اپریل تک پرانے معمول کے تحت چلیں گے جبکہ باقی اضلاع کے سکولوں کو کرونا سے پہلے والے حالات کے تحت کھول دیا جائے گا۔

لیکن دوسری جانب لاہور کے کچھ نجی سکول سو فیصد بھی کھول دیے گئے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں واقع سٹی سکول کی پرنسپل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  ’تمام سکول ایس او پیز پر عمل کروا رہے ہیں، مسئلہ ان سکولوں کا ہے جو چھوٹے چھوٹے گھروں میں کھلے ہیں۔‘

اپنے سکول کی مختلف برانچوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’جو برانچیں بڑی ہیں اور جہاں 100 فیصد ایس او پیز پر عمل ہو سکتا ہے انہیں مکمل کھول دیا گیا ہے جبکہ وہ برانچیں جو قدرے چھوٹی ہیں اور وہاں سو فیصد ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کروایا جاسکے گا وہاں 50 فیصد طلبہ والا طریقہ کار ہی چل رہا ہے اور اس حوالے سے حکومت نے بھی ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پنجاب حکومت کے اہلکار  اس معاملے میں بہت متحرک ہیں اور ان کی پوری نظر ہے کہ کہاں ایس او پیز پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور کہاں نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے والدین بہت زیادہ خوش ہیں۔ ’صرف پانچ فیصد والدین کو مسئلہ ہے اور میرے خیال میں یہ اچھی بات ہے کیونکہ کیونکہ اگر کسی نئے فیصلے کا کوئی تنقیدی جائزہ نہ لیا جا رہا ہو تو اس کا مزہ نہیں آتا۔‘

سٹی سکول کی ہی ایک ٹیچر لبنیٰ امیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آن لائن کلاسز کا سلسلہ ختم ہونا خوش آئند ہے۔ اگرچہ سکول میں حاضری تھوڑی کم ہے لیکن اب سب بچے سکول ہی آئیں گے، یہاں تک کہ سکول میں مختلف تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔‘

دوسری جانب پنجاب ٹیچرز یونین کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت بھی صوبائی حکومت کے اس فیصلے سے خوش ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ یہ سات اضلاع بڑے ہیں اور یہاں لوگوں کا میل جول زیادہ ہے، اس لیے یہ درست فیصلہ ہے کہ یہاں سکول پرانے ایس اوپیز کے تحت چلائے جائیں۔‘ انہوں نے بتایا: ’جن اضلاع میں سرکاری سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں مکمل بحال کی گئی ہیں، وہاں کے والدین کو صرف یہ تحفظات ہیں کہ اگر ان کے بچے بیمار ہوتے ہیں تو حکومت انہیں مفت طبی سہولیات فراہم کرے۔‘

سکول و کالجز کی اساتذہ تنظیموں کے اتحاد (پیسپا) کے چیئرمین کاشف شہزاد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اگر شادی ہال کھل سکتے ہیں، ہر محکمہ کھل سکتا ہے تو وہ سکول جہاں ایس او پیز پر بھی سو فیصد عمل ہو رہا ہے، انہیں بھی کھول دیا جائے اور بچوں کو پڑھنے کا موقع دے دیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سرکاری سکولوں میں تو آن لائن پڑھائی کا بھی سسٹم نہیں ہے کیونکہ یہاں آنے والے 80 سے 90 فیصد بچے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں موبائل فون یا لیپ ٹاپ وغیرہ تک رسائی نہیں ہے، اس لیے ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔‘

اسی طرح آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا خیال ہے کہ ’وفاقی حکومت کے فیصلے کو نہ تو سندھ نے قبول کیا اور نہ ہی پنجاب نے مکمل طور پر۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ تعلیمی نظام کہیں سنگل نیشنل کریکلم کی نظر ہو رہا ہے کہیں کرونا کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ جس ملک میں صرف 14 فیصد لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت کسی نیٹ ڈیوائس کے ساتھ موجود ہو اور والدین کی آئی ٹی کے حوالے سے معلومات بھی محدود ہوں، وہاں آپ اتنے لمبے عرصے تک تعلیمی ادارے کیسے بند کر سکتے ہیں۔‘

کاشف مرزا نے بتایا کہ ’پاکستان میں چار کروڑ 90 لاکھ سکول جانے والے بچوں میں سے صرف دس لاکھ بچوں کے پاس آن لائن کلاس لینے کی سہولت موجود ہے۔‘

والدین کیا کہتے ہیں؟

علی طراب کے چار سالہ بیٹے لاہور کےکریسنٹ ماڈل سکول میں پلے گروپ کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے 2020 میں سکول جانا شروع کیا۔ علی کا کہنا ہے: ’جیسے ہی سکول میں داخلہ ہوا، اس کے کچھ عرصہ بعد ہی سکول بند ہو گئے جس کی وجہ سے ابھی تک میرے بیٹے کو یہ ہی معلوم نہیں ہو سکا کہ سکول کیا ہے اور کلاس کا نظم و ضبط کیا ہوتا ہے۔ آن لائن کلاسز کے دوران بچے کو ایک جگہ بٹھانا اور قابو کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کابچہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں ایک بچے کی تعلیمی بنیاد رکھی جارہی ہوتی ہے۔

’میں یہ چاہوں گا کہ میرا بچہ ہفتے میں پانچ دن سکول جائے تاکہ اس کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہو اور اسے جماعت کے نظم وضبط کی عادت پڑے۔‘

اسی طرح شفق عامر کے دو بچے لاہور گرامر سکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہیں بھی سکول سے یہی نوٹیفکیشن آیا کہ ابھی 50 فیصد حاضری والی پالیسی پر ہی عمل ہوگا۔

شفق کا کہنا ہے کہ ان کے چار بچے ہیں اور ایک وقت میں چاروں بچوں کی آن لائن کلاس لینا انتہائی مشکل ہے۔ ’اس میں بچے سیکھتے بھی کچھ نہیں کیونکہ ان کا دھیان دوسری چیزوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ جہاں تک کرونا کا تعلق ہے تو وہ جسے ہونا ہے، اسے ہونا ہے۔ اگر بچے ہر جگہ جا سکتے ہیں تو ہر روز سکول جانے میں کیا مسئلہ ہے؟‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اس دن کے انتظار میں ہیں جب ان کے سب بچے ہفتے کے پانچ دن سکول جانا شروع کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس