میری جنس نے کبھی مجھے کام کرنے سے نہیں روکا: خاتون انجینیئر

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارم جمیل کہتی ہیں کہ اگر خواتین کے لیے ماحول سازگار بنایا جائےتو وہ ضرور سائنس اور تحقیق میں آگے آئیں گی۔

جہاں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین  کی کمی ایک المیہ ہے، وہیں اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایک خاتون محقق ایسی بھی ہیں جو حکومت پاکستان کے لیےڈیٹا سائنس کے ایک ایسے بڑے پراجیکٹ کی سربراہی کر رہیں جس سے مستقبل میں وبائی صورت حال سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یونیوسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف انجینیئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پرتعینات  ڈاکٹر ارم جمیل حکومت کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے پر کام کر رہی ہیں جس میں مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے حکومت کووڈ اور دوسری وباؤں سے نمٹنے کے لیے بہتر فیصلہ سازی کر سکے گی۔

ڈاکٹر ارم ایک کروڑ 69 لاکھ روپے مالیت کے اس پراجیکٹ کی مرکزی محقق ہیں جسے پاکستان سائنس فاؤنڈیشن نے فنڈ کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی کے سینٹر فار ایڈوانسڈ الیکٹرانکس اور فوٹوولٹائک انجینیئرنگ (کائپ) لیب میں جاری یہ پراجیکٹ اپنی نوعیت کا بڑا پراجیکٹ ہے۔ ’اس کے اندر ہم ایک مختلف قسم کی حکمت عملی دے رہے ہیں کہ بہتر فیصلہ سازی کیسے کی جاسکتی ہے،  ہم ملٹی نوڈ سیٹ اپ بنا رہے ہیں تاکہ جو ڈیٹا ملے جس کی بنیاد پر آپ فیصلہ لیں گے وہ مخلتف ذرائع سے اپ کے پاس آئے۔   ہم مصنوعی ذہانت سے آرستہ فیصلہ سازی کا پلیٹ فارم بنائیں گے۔اس سے ڈاکٹرز، عوام، ڈائیگناسٹک لیب، پاکستان کی حکومت، اور دیگر فیصلہ سازی کے اداروں کو فائدہ ہوگا۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کرونا وبا کے دیہی علاقوں کے رہائشیوں پر اثرات کو بھی شامل کیا گیا ہے، کیونکہ اس سے قبل کووڈ کے حوالے سے زیادہ تر ڈیٹا شہری علاقوں سے ہی جمع ہوتا ہے۔

پاکستان میں انجینیئرنگ کی ڈیگری حاصل کرنے کے بعدڈاکٹر ارم نے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کرنے کے لیے کئی سال یورپ اور امریکہ میں گزارے، مگر ملک کا پیار اور یہاں کی خواتین کے لیے کچھ کرنے کی لگن انہیں واپس پاکستان کھینچ لائی۔  ’میرا شوق یہ تھا کہ میں پاکستانی خواتین کو وہی موقعے فراہم کر سکوں جن سے میں نے خود فائدہ اٹھایا ہے، تو اس لیے میں نے پاکستان واپس آنے کا سوچا۔‘

تین سال قبل جب وہ واپس آئیں تو اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انہیں وہی ماحول ملا جس کی وہ تلاش میں تھیں، ایک ایسا ماحول جہاں خواتین سائنس دانوں اور ریسرچروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو اور ان کے کام کو پذیرائی ملتی ہو۔


ڈاکٹر ارم کے مطابق یونیورسٹی کے کائپ لیب کا دورہ کرتے ہی وہ اس ادارے کا حصہ بننے کے لیے قائل ہوگئیں۔ ’میں نے دیکھا کہ یہاں خواتین کے  تحقیقی پراجیکٹس پر کافی توجہ دی جاتی ہے تو میں نے اسے جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اپنی نوعیت کا پہلا انجینیئرنگ پروگرام ہے جو صرف خواتین کے لیے ہے۔

یونیوسٹی میں فیمیل کیمپس ہی الگ ہونے اور ہوسٹل کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سے یہاں ان طالبات کے لیے آسانی ہو جاتی ہے جن کے والدین انہیں دوراکیلے نہیں بھیجنا چاہتے یا پھر مکس کیمپس میں پڑھانا نہیں چاہتے۔  

ڈاکڑ ارم کا کم عمری سے ہی سائنس سے لگاؤ تھا۔ ’میرے والدین بھی سائنس دان ہیں، میری بہن بھی ہے، تو ایک طریقے سے ہمارے خون میں سائنس ہے، ہمیں بہت شوق سے چیزوں کو سمجھنے کا ،ان کو جانچنے کا، اسی وجہ سے میں انجینیئرنگ کی طرف آئی۔‘

خواتین سائنس دان آگے کیوں نہیں آتی؟

سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی اور انجینیئرنگ (جنہیں سٹیم سبجیکٹس کہا جاتا ہے) میں پاکستان میں خواتین کے مصدقہ اعدادوشمار کہیں درج نہیں ملتے، تاہم خواتین انجینیئرز کے فورم ’ویمن انجینیئرز ان پاکستان‘ کے مطابق ملک میں صرف 18 فیصد خواتین سٹیم فلیڈز میں کام کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ڈاکٹر ارم کہتی ہیں کہ ان کی طالبات کی طرف سے انہیں یہ سننے کا ملتا ہے کہ خواتین طلبہ کو وہ سہولیات نہیں دی جاتیں جو مرد طلبہ کو دی جاتی ہیں، جو انجینیئرنگ کی فیلڈ میں خواتین کے کم ہونے کی ایک وجہ ہے۔   وہ کہتی ہیں: ‘ہمارے ہاں یہ تاثر ہے کہ خواتین مشینوں پر کام نہیں کر سکتی یا کوئی اور جسمانی کام نہیں کرسکتیں، تو ہم مردوں کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔‘

اس کے علاوہ بھی خواتین کو سائنس کی فیلڈز میں دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ زیادہ تر والدین پڑھائی کے لیے لڑکیوں کو دور دراز شہروں میں اکیلے نہیں بھجینا چاہتے، کچھ خواتین شادی شدہ ہوتی ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں تو ان کے پاس بچوں کو چھوڑنے کے لیے ڈے کئیر یا کوئی محفوظ جگہ نہیں ہوتی جبکہ کچھ اداروں میں خواتین کے کام کرنے کے لیے سازگار اور محفوظ ماحول نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر ارم کہتی ہیں کہ اگر ان مسائل پر غور کر کے ان کا حل نکال لیا جائے، جیسے خواتین کے لیے مخصوص کیپمس ہوں، تعلیمی اور ری سرچ اداروں میں ڈے کئیر کی سہولت فراہم کی جائے، اداروں میں خواتین کے لیے ماحول محفوظ بنایا جائے تو انہیں یقین ہے کہ پاکستان میں سائنس میں خواتین کی تعداد اور ان کی ریسرچ میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا: ’ہم اکثر مردوں کی فیلڈ میں اکیلی ہوتی ہیں تو ایک چیز جو ہمارے لیے بہت اہم ہے وہ یہ کہ ہم خواتین ری سرچرز کو محفوظ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو وہ سپیس دیں کہ وہ آرام سے کام کر سکیں، ان سے بات چیت رسمی ہو، ہم ان کو ان کی ری سرچ میں سپورٹ کریں اور ایسا ماحول دیں کے کہ وہ بلا جھجھک اپنے باسز سے اپنے مسائل پر بات کر سکیں۔ تب ہی ہمارے ہاں خواتین کی حواصلہ افزائی ہوگی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ اسلامک یونیورسٹی اور کائپ میں ان کو ایسا ہی سازگار ماحول ملا جبکہ ان کے اہل خانہ نے بھی ان کے ساتھ بہت تعاون کیا جس کی وجہ سے وہ آج اپنی فیلڈ میں کامیاب ہیں۔ ’جب میں کام پر ہوتی ہوں تو میری ساس میرے تین سال کے بیٹے کو سنبھالتی ہیں، میرے گھر والوں نے کبھی نہیں کہا کہ آپ گھر بیٹھ جائیں۔ اس لیے خواتین کے لیے گھر والوں کی سپورٹ ہونا بھی بہت اہم ہوتا ہے۔‘

سائنس اور ٹیکنالوجی میں کام کرنے کی خواہش مند خواتین کو ان کا مشورہ یہ ہے کہ گھر اور دفتر کے درمیان وقت کو بانٹنے پر ندامت نہ محسوس کریں بلکہ دونوں کو ان کے مخصوص وقت پر اہمیت دیں، اسی سے وہ کامیاب ہو سکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین