افغان حکومت نئے انتخابات پر بات چیت کے لیے تیار: صدر غنی

’انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی ہمارے لیے سب سے اہم اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

صدر اشرف غنی کا اصرار ہے کہ اقتدار میں آنے کا واحد راستہ انتخاب کے ذریعے ہونا چاہیے  (اے ایف پی)

افغان صدر اشرف غنی نے ہفتے کو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نئے انتخابات کے انعقاد پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی نئی حکومت کو جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہیے۔ کابل میں پارلیمنٹ اجلاس کے آغاز پر صدر غنی نے قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی ہمارے لیے سب سے اہم اصول ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

’ہم عالمی برادری کے زیر انتظام آزاد، منصفانہ اور جامع انتخابات کے انعقاد پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم انتخابات کی تاریخ کے بارے میں بھی بات کرسکتے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘

صدر غنی نے گذشتہ ہفتے کابل میں افغانستان کے لیے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی، جس میں قطر میں ہونے والے طالبان نمائندوں کے ساتھ تعطل کے شکار امن مذاکرات کو تیز کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

کابل میں اہم ملاقاتوں کے بعد خلیل زاد قطر کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان کے بارے میں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی شروع کردی ہے، جس میں 2020 کے اوائل میں طالبان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔

افغان عہدے داروں اور مغربی سفارت کاروں نے بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے دورہ کابل کے دوران افغان حکومت اور طالبان رہنماؤں کو عبوری حکومت کے قیام کا خیال پیش کیا تھا۔

لیکن صدر غنی کا اصرار ہے کہ اقتدار میں آنے کا واحد راستہ انتخاب کے ذریعے ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا: ’میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ افغانستان میں سیاسی طاقت کا ایک دروازہ ہے اور اس کی چابی افغان عوام کا ووٹ ہے۔‘

’کوئی بھی ادارہ کسی کاغذ کے ٹکڑے پر خیالی تحریر لکھ سکتا ہے اور افغانستان کے حل کا مشورہ دے سکتا ہے۔ یہ مقالات ماضی میں بھی لکھے گئے ہیں اور آئندہ بھی لکھے جائیں گے۔ لیکن ہمارا آئین ہی ہماری ضمانت ہے۔‘ دوسری جانب ہفتے کو ہی افغانستان میں واشنگٹن کے خصوصی مندوب نے قطر میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب افغٖانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور امریکی فوجیوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن کے قریب آنے کے ساتھ ہی امن عمل کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے اس سے قبل کابل میں افغان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی، جن میں صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ شامل ہیں۔

طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں اعلیٰ امریکی جنرل نے جمعے کو ملا عبد الغنی برادر سمیت دوحہ میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کی۔

انہوں نے لکھا: ’دونوں فریقوں نے دوحہ معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا اور اس کے مکمل نفاذ کے لیے تبادلہ خیال کیا۔ اسی طرح افغانستان کی موجودہ صورتحال اور انٹرا افغان مذاکرات میں تیزی لانے اور بااثر بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا