لاہور یونیورسٹی سے نکالے گئے طلبہ ’وی لاگرز اور یو ٹیوبرز سے تنگ‘

ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لاہور کی نجی یونیورسٹی سے نکالے گئے دونوں طلبہ کے دوستوں کے مطابق وہ کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔

وائرل ویڈیو میں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرنے والے طلبہ (ویڈیو سکرین گریب)

ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لاہور کی نجی یونیورسٹی کی جانب سے نکالے گئے دو طلبہ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وی لاگرز اور یو ٹیوبرز کے تنگ کرنے کی وجہ سے وہ کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔

چند روز قبل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ایک لڑکی کو ہاتھوں میں گلدستہ لیے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے سامنے کھڑے نوجوان کو شادی کا پیغام دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جس کے بعد لڑکا، لڑکی کو گلے سے لگا لیتا ہے جبکہ ارد گرد کھڑے دیگر طلبہ و طالبات تالیاں بجاتے ہوئے نظر آئے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ بھی حرکت میں آگئی اور ڈسپلنری کمیٹی نے دونوں کو طلب کیا، تاہم پیش نہ ہونے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں جنرل ڈسپلن قواعد اور کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 16 کے تحت نہ صرف یونیورسٹی سے نکال دیا بلکہ ان پر یہ بھی پابندی لگائی کہ وہ یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں دکھائی نہ دیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے دونوں طالب علموں سے رابطے کی کوشش کی مگر ان کے فون نمبر بند تھے، تاہم ان کے کچھ دوستوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ دونوں کی شادی کے حوالے سے خبریں درست نہیں ہیں اور فی الوقت وہ کسی سے بھی رابطے میں نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مذکورہ طالب علموں کے دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’وہ دونوں اس لیے بھی کسی سے رابطے میں نہیں کیونکہ انہیں وی لاگر اور یو ٹیوبرز بہت زیادہ تنگ کر رہے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر یہ بھی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ شاید ان طالب علموں نے شہرت کے لیے یہ ویڈیو خود بنائی اور اسے وائرل کیا، تاہم اس ویڈیو کے بعد ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں مذکورہ لڑکی کو یہ کہتے سنا جارہا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کی انہیں کوئی خوشی نہیں ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی ساتھی طالبہ کی کردار کشی کے خلاف ایک فیس بک پوسٹ میں اس سلسلے کو ختم کرنے کی درخواست کی۔

نوجوان نے لکھا: ’جو کچھ بھی ہوا وہ میری غلطی ہے اور میں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ کوئی لڑکی کے کردار کے حوالے سے بات نہ کرے کیونکہ اگر کوئی بد کردار ہے تو وہ میں ہوں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ان کی ساتھی طالبہ نے صرف اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں پروپوز کیا۔ اس کے بعد جو ہوا اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں تھی۔

نوجوان کا مزید کہنا تھا: ’اب یو ٹیوبرز اس قصے کو اچھالیں گے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ ایسا نہ کریں اور اگر انہیں ایسا کرنا بھی ہے تو وہ لڑکی کا چہرہ چھپا دیں۔‘

ان کی اس پوسٹ کے بعد ویڈیو میں موجود لڑکی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اگر کوئی غلطی پر ہے تو وہ خود ہیں، اس میں لڑکے کا کوئی قصور نہیں۔‘

یونیورسٹی کیا کہتی ہے؟

یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران نے اس سارے کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دونوں طالب علم ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ ان کے پاس اپیل کا حق ہے، اگر وہ اپیل کریں گے تو ہم دیکھ لیں گے۔‘

مجاہد کامران کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں کو یونیورسٹی سے نکالنے کا فیصلہ کسی دباؤ میں آکر نہیں کیا۔ ہمارے کوڈ آف کنڈکٹ میں لکھا ہے کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے۔ ہمارے ہاں تو میاں بیوی بھی کھلے عام ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔‘

اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث جاری ہے، جہاں بہت سے لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں تو کئی اس کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔

معروف کرکٹر وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرہ اکرم نے نوجوانوں کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’حال ہی میں نے عالمی یوم خواتین منایا ہے اور اب ایک معروف یونیورسٹی نے اپنی ایک خاتون طالبہ کو اس لیے نکال دیا کہ وہ کسی نوجوان کو شادی کا پیغام دینے کی ہمت رکھتی تھی۔ ہم کس طرح کی مثالیں قائم کر رہے ہیں؟‘

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی طلبہ کے حق میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’مرضی  سے شادی ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے، اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ (لاہور) یونیورسٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، لڑکیوں کو پراپرٹی سمجھنا اسلام کے خلاف ہے۔‘

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور بھٹو نے بھی اپنی ٹویٹ میں یونیورسٹی کے اس عمل کو مضحکہ خیز قرار دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’طاقتور، متاثرکن! امید اور محبت سے بھرا ہوا! نوجوانوں کو طاقت ملے!‘

دوسری جانب سوشل میڈیا پر ان طالب علموں کی اس حرکت کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

عالیہ ساجد ایک ہاؤس وائف ہیں اور ان کے دو بیٹے بھی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہیں۔ ان کے خیال میں یونیورسٹی میں ہر طرح کے ماحول سے بچے آتے ہیں، لیکین بعض گھروں میں لڑکیوں کو یونیورسٹی جانے کی اجازت صرف اس لیے نہیں ملتی کیونکہ ان کے والدین کے خیال میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اکٹھے پڑھنے کی وجہ سے وہاں کا ماحول نامناسب ہے۔

بقول عالیہ: ’اس واقعے سے ان والدین کی سوچ کو تقویت ملی ہے۔ میں مانتی ہوں کہ اس عمر کے بچے جذباتی ہوتے ہیں اور ان کے ان جذبات کو فلمیں اور ڈرامے مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس کیس میں اس لڑکی کو یہ حرکت کرتے ہوئے خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ اس طرح نہ جانے کتنی لڑکیوں کے والدین اب شاید انہیں یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت ہی نہ دیں۔ انہیں سزا ملنی چاہیے لیکن یونیورسٹی والوں کو چاہیے کہ ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ کریں۔‘

واضح رہے کہ اس سے پہلے معروف اداکارہ اقرا عزیز اور میزبان و اداکار یاسر حسین کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں یاسر حسین نے اقرا کو ایک ایوارڈ کی تقریب میں شادی کا پیغام دیا اور انہیں گلے سے لگایا تھا۔ اس ویڈیو کو بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم کچھ عرصے بعد دونوں نے شادی کرلی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل