الیکشن کمیشن: حکومت کا تعینات کرکے اب ہٹانے کا مطالبہ کیوں؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان کے مطابق ’آئینی طور پر حکومت الیکشن کمشنر یا کمیشن کے کسی رکن کو نہیں ہٹاسکتی، انہیں ہٹانے کا وہی طریقہ ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہٹانے کا ہے۔‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمارت  (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کئی ماہ سے جاری  گرما گرمی اب اداروں کو درمیان میں لانے تک پہنچ چکی ہے اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے گذشتہ سال اپوزیشن کی مشاورت سے تعینات کیے گئے الیکشن کمیشن پر خود ہی جانبداری کا الزام لگا کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور سکروٹنی کمیٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشنر یا اراکین کو ہٹانے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں۔

وفاقی وزرا شفقت محمود، شبلی فراز اور فواد چوہدری نے پیر کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ الیکشن کمشنر اور اراکین نے پیسےلے کر وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کا راستہ روکنے کے لیے عدالتی تجویز پر عمل نہیں کیا کیونکہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دی تھی کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن نہیں ہوسکتا لیکن ایسا انتظام کیا جائے کہ وفاداری تبدیل کرنے والوں کا پتہ چل سکے۔

وزرا کا مزید کہنا تھا کہ ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

ساتھ ہی وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن کو ’ناکام‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غیر جانبدار ایمپائر کا کردار ادا نہیں کر رہا، اس لیے اسے بحیثیت مجموعی استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

جس پر مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’عمران خان حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے استعفے کے مطالبے کا مقصد دراصل فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی پر دباؤ ڈالنا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگلا قدم سکروٹنی کارروائی کا بائیکاٹ کرکے جانچ پڑتال کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہوسکتا ہے، کیونکہ انہوں نے اربوں روپے نجی بینک اکاؤنٹس میں چھپا رکھے ہیں۔‘

پی ٹی آئی کے ناراض رکن اکبر ایس بابر نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’انتخابات کے معاملے پر الیکشن کمیشن کا کوئی ایسا فیصلہ نہیں کہ ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمران فارن فنڈنگ کیس میں اپنے خلاف فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘

فارن فنڈنگ کیس ان 23 پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق ہے، جن میں سے بیشتر ظاہر نہیں کیے گئے اور جن میں اربوں روپے کے فنڈز دوسرے ممالک سے بھی ٹرانسفر ہوئے، جن کی پی ٹی آئی نے کوئی دستاویز پیش نہیں کیں کہ وہ کہاں خرچ ہوئے۔

اکبر ایس بابر کے مطابق: ’سکروٹنی کمیٹی کی تحقیقات کے بعد جلد ہی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع ہوگی اور فیصلہ سنایا جانا ہے اور حکومت اس سے خوفزدہ ہے۔‘

الیکشن کمیشن کی تعیناتی اور ہٹانے کا قانون

آئینی طور پر الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے اتفاق رائے کے بعد ہوتی ہے۔

موجودہ الیکشن کمشنر سکندر سلطان کا نام وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بذریعہ خط اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بجھوایا گیا تھا، جس پر اپوزیشن متفق ہوئی تو پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے بعد اس کمیٹی کی چیئرپرسن شیریں مزاری نے جنوری 2020 میں سکندر سلطان کی تقرری سے متعلق حکومتی منظوری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

شیریں مزاری نے اجلاس کے بعد نوید سناتے ہوئے کہا تھا کہ سربراہ الیکشن کمشنر کے لیے سکندر سلطان راجہ کی تقرری پارلیمنٹ کے ذریعے ہونا جمہوریت کی مضبوطی کا تسلسل ہے اور پارلیمان اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے آئندہ بھی ایسی ہی روایت کو لےکر چلیں گے۔

دوسری جانب قانونی ماہرین کے مطابق حکومت موجودہ الیکشن کمشنر سکندر سلطان اور اراکین کو ہٹانے کا اختیار نہیں رکھتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن جیسے بااختیار اور آئینی ادارے کو اس طرح متنازعہ بنانا جمہوریت اور آئین کے خلاف ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا کوئی متنازعہ عمل سامنے نہیں آیا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف ردعمل دیا جاتا۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے ہی ملک کے ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

حامد خان کے مطابق: ’آئینی طور پر حکومت الیکشن کمشنر یا کمیشن کے کسی رکن کو نہیں ہٹاسکتی، انہیں ہٹانے کا وہی طریقہ ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ہٹانے کا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’حکومت الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر سکتی ہے، وہاں ایسے ثبوت پیش کرنا لازمی ہیں جن سے ان کے غیر قانونی یا بدعنوانی سے متعلق الزامات ثابت ہوں جبکہ ایسے الزامات موجود نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ الیکشن کمشنر خود مستعفی ہوسکتے ہیں یا پھر کوئی حادثہ ہوتو پھر یہ عہدہ خالی ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ سکندر سلطان راجہ سیکرٹری ریلوے کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے تو اس وقت کے وزیر ریلوے شیخ رشید نے بھی ان کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔

ان کی تقرری پر رائے دی گئی تھی کہ اس سے قبل یہ عہدہ ہمیشہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے حصے میں آتا رہا، لیکن پہلی بار کسی بیورو کریٹ کو تعینات کیاگیا۔

یہ تاثر بھی سامنے آیا تھا کہ سکندر سلطان راجہ عمران خان اور نواز شریف سے قریب رہے ہیں، اس لیے ان کے نام پر اتفاق ہوا۔ وہ نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے داماد بھی ہیں اور عمران خان کا بھی زمان پارک، لاہور میں رہائش کے وقت سعید مہدی سے اچھا تعلق تھا۔

اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے حکومتی عہدیداروں شفقت محمود، شہباز گل اور شہزاد اکبر سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہیں ملا، تاہم ابھی تک کسی حکومتی شخصیت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا حکومت الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس دائر کرے گی یا نہیں۔

قانون کیا کہتا ہے؟

چیف الیکشن کمیشنر اور ممبران کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 215 (2) کے تحت الیکشن کمشنر یا ممبر (ای سی پی) کو صرف جج کے عہدے سے ہٹانے کے لیے آرٹیکل 209 میں طے شدہ انداز میں اور دفتر کے لیے آرٹیکل کی درخواست میں ہی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس طریقہ کار میں جج کے حوالے سے اس آرٹیکل میں کوئی بھی حوالہ کمشنر کے حوالے یا کسی ممبر کے طور پر سمجھا جائے گا۔ 

سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سربراہ عدالت عظمیٰ کے دو سینیئر ترین جج اور اعلیٰ عدالتوں کے دو چیف جسٹس شامل ہوتے ہیں۔

آرٹیکل 209 (5) (بی) میں لکھا گیا ہے اگر کسی بھی وسیلہ سے ملنے والی معلومات پر کونسل یا صدر کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ کے جج یا کسی ہائی کورٹ کے کوئی جج بدانتظامی کے مرتکب ہوئے ہوں تو صدر مملکت کونسل کو ہدایت دیں یا کونسل اپنی تحریک پر اس معاملے کی انکوائری کرسکے گی۔

آئین کے آرٹیکل 209 (6) کے مطابق اس معاملے کی تفتیش کے بعد کونسل، صدر کو اطلاع دیتی ہے کہ اس کی رائے ہے کہ جج اپنے عہدے کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر رہ اہے یا بدعنوانی کا مرتکب ہوا ہے اور یہ کہ انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے  اس کے بعد صدر مملکت جج کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔

آرٹیکل 209 (7) میں درج ہے کہ سپریم کورٹ کے جج یا کسی ہائی کورٹ کے جج کو عہدے سے ہٹایا نہیں جائے گا سوائے اس کے کہ آرٹیکل کے فراہم کردہ اور سی ای سی اور چاروں ممبروں میں سے کسی کو بھی ہٹانے کا طریقہ کار یکساں ہے۔ 

اگرچہ حکومت کی جانب سے سی ای سی اور چار ممبروں پر مشتمل کمیشن سے استعفیٰ کا مطالبہ ای سی پی کی جانب سے حالیہ سینیٹ انتخابات کو ایمانداری سے کرانے میں مبینہ ناکامی کی بنا پر کیا گیا ہے ، لیکن بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ نتائج توقعات کے مطابق تھے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی عددی طاقت سوائے اس کے کہ اسلام آباد کی ایک عام نشست کے لئے رائے شماری میں مسائل ہوئے جہاں حزب اختلاف کے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو شکست دی۔

اس معاملہ پر ردعمل جاننے کے لیے جب الیکشن کمیشن حکام سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے اس مطالبہ پر موقف دینے سے معذرت کر لی

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان