افغانستان سے فوجی انخلا ’مشکل‘: جو بائیڈن کے بیان پر طالبان کی تنبیہ

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ مقررہ تاریخ تک افغانستان سے عیرملکی افواج کو نکالنا ’مشکل‘ ہوگا، جس پر طالبان نے اپنے ردعمل میں امریکہ کو اس کے ’نتائج‘ سے خبردار کیا ہے۔

جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا : ’ڈونلڈ ٹرمپ سے صدارت کا مجھے منتقل ہونا باضابطہ طریقے سے نہیں ہوا‘ (فائل تصویر:اے ایف پی)

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ یکم مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ممکن ہے لیکن ایسا ہونا مشکل ہے، جس پر افغان طالبان نے ردعمل دیتے ہوئے امریکہ کو اس کے ’نتائج‘ سے خبردار کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا: ’ایسا ہوسکتا ہے لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ میں اس بارے میں فیصلہ کرنے کے مرحلے میں ہوں کہ ہم کب افغانستان سے انخلا کریں گے۔‘

انہوں نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کی جانے والی ڈیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سابق صدر کے دور میں کیا جانے والا معاہدہ بہتر انداز میں نہیں کیا گیا تھا۔‘

جو بائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ سے صدارت کا مجھے منتقل ہونا باضابطہ طریقے سے نہیں ہوا۔ یہ عمل عام طور پر انتخاب کے دن سے شروع ہو جاتا ہے اور حلف برداری کے دن تک چلتا ہے، لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے میرا وقت ضائع ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افغانستان بھی ایسے ہی معاملات میں سے ایک معاملہ ہے۔‘

جو بائیڈن کے اس بیان کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ردعمل میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا: ’امریکیوں کو دوحہ معاہدے کے تحت اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا اور افغانستان سے یکم مئی تک اپنی افواج کو مکمل طور پر نکالنا ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر کسی بھی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر وہ نتائج کے ذمہ دار خود ہوں گے۔‘ ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی صورت میں افعانستان کے لوگ اپنا فیصلہ کریں گے۔‘

طالبان کے ساتھ فروری 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے تحت امریکہ نے یکم مئی تک اپنی افواج افغانستان سے نکالنی ہیں۔ طالبان نے بھی اسی شرط پر افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ سے مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ستمبر سے قطر میں جاری مذاکرات میں کچھ خاص پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واشنگٹن چاہتا ہے کہ جلد سے جلد امن عمل کو شروع کیا جائے تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان شراکت اقتدار کا کوئی معاہدہ طے کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 کے قریب بتائی گئی تھی تاہم حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایاگیا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کل تعداد 3500 ہے، جو پہلے کی اطلاع سے ایک ہزار زیادہ ہے۔

دوسری طرف ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ افغانستان میں نیٹو کے قریب 7000 فوجی بھی موجود ہیں۔ ان افواج کا بنیادی مشن فضائی مدد، تربیت، مشاورت اور افغان فوج کی امداد ہے۔ لیکن یہ فورسز وقتا فوقتا انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کرتی ہیں۔

دوسری جانب امریکہ نے افغانستان میں قیام امن کو تیز کرنے کی غرض سے کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان اشتراکِ اقتدار کا نیا فارمولا پیش کیا ہے، جس کے تحت دونوں فریقین کی شراکت سے عبوری حکومت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا