موٹروے ریپ کیس: دو مجرموں کو موت کی سزا

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے موٹروے گینگ ریپ کیس میں عابد ملہی اور شفقت علی کو سزائے موت سنا دی۔

موٹروے ریپ کیس میں گرفتار ہونے والے  شفقت علی   (بائیں)  اور عابد ملہی  (دائیں) ۔(تصاویر پنجاب پولیس)

لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہفتے کو موٹروے گینگ ریپ کیس میں دو مجرموں عابد ملہی اور شفقت علی کو سزائے موت سنا دی۔

عدالت نے دفعہ 376 کے تحت دونوں مجرموں کو سزائے موت،  365 اے کے تحت عمر قید جبکہ دفعہ 392 کے تحت ڈکیتی میں 14 سال قید کے علاوہ پچاس، پچاس ہزار روپے جرمانہ اور منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم سنایا۔

عدالت نے مجرموں کی سزا کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزا پر عمل درآمد لاہور ہائی کورٹ کے حکم سے مشروط ہوگا۔

مجرموں کو سنائی گئی تمام سزائیں ایک ہی وقت میں لاگو ہوں گی۔ پولیس نے اس مقدمے کا 200 صفحات پر مشتمل چالان جمع کرایا تھا۔

وٹر وے ریپ کیس نو ستمبر، 2020 کو لاہور، سیالکوٹ موٹر وے پر تھانہ گجر پورہ کی حدود میں پیش آیا تھا، جہاں پیٹرول ختم ہو جانے پر سڑک کے کنارے کھڑی گاڑی میں ایک خاتون کا ان کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا تھا۔  

اس کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوئی، جہاں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جمعرات (18 مارچ) کو فیصلہ محفوظ کیا گیا، جسے آج سنا دیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ایڈمن جج ارشد حسین بھٹہ نے کیمپ جیل میں اس حساس مقدمے کی سماعت کی۔

پراسیکیوشن کی طرف سے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل عبدالجبار ڈوگر اور وقار بھٹی نے دلائل دیے کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں، عابد ملہی کو ڈی این اے جائے وقوعہ سے میچ کرکے گرفتار کیا گیا جبکہ شفقت نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

پراسیکیوشن نے دلائل میں مزید کہا کہ عابد کو متاثرہ خاتون نے مجسٹریٹ کے سامنے شناخت کیا، ملزمان نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا لہٰذا شواہد اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

ملزمان کی طرف سے قاسم آرائیں ایڈووکیٹ اور شیر گل قریشی ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ سی ڈی آر کے مطابق شفقت کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی جبکہ اس کی شناخت پریڈ گرفتاری کے 22 دن بعد کرائی گئی اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت ان کا بیان ایک ماہ اور 18 دن کی تاخیر اور دباؤکے تحت کرایا گیا۔

وکیل صفائی نے مزید دلائل دیے کہ شفقت کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان قلم بند کرانے کے لیے فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا اور قبول جرم کا بیان قلم بند کراتے ہوئے مقدمے کا تفتیشی افسر بھی عدالت میں موجود تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیل میں شناخت پریڈ کے دوران اسی اہلکار کے ذریعے متاثرہ خاتون کو جیل کے اندر لایا گیا جو ملزمان کو پہلے دیکھ چکا تھا، یہ چیز شناخت پریڈ کی کارروائی کو مشکوک بناتی ہے جبکہ انسداد دہشت گردی عدالت کو شناخت پریڈ کا بھجوایا گیا ریکارڈ بھی سربمہر نہیں تھا۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ عابد کی عمر دستاویزات میں 35 برس لکھی گئی جبکہ ان کی حقیقی عمر 20 برس ہے لہٰذا پراسیکیوشن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا جائے اور عابد اور شفقت کو بری کیا جائے۔

عدالت میں ملزمان کے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیانات پہلے ہی قلم بند کیے جاچکے تھے۔ عدالت کے روبرو فرانزک ٹیم اور ڈولفن فورس اہلکار سمیت 37 کے قریب گواہان پیش ہوئے۔

موٹروے ریپ کیس: کب کیا ہوا؟

اس واقعے کی ایف آئی آر کےمطابق گذشتہ سال 9 ستمبر کو لاہور کے علاقے گجر پورہ میں گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی متاثرہ خاتون رات کو تقریباً ڈیڑھ بجے کار میں اپنے دو بچوں کے ہمراہ لاہور سے گجرانوالہ واپس جا رہی تھیں کہ رِنگ روڈ پر گجر پورہ کے نزدیک ان کی کار میں پیٹرول ختم ہو گیا، جس پر وہ گاڑی میں بیٹھ کر مدد کا انتظار کرنے لگیں۔

رپورٹ کے مطابق پہلے خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو فون کیا، جنھوں نے موٹر وے پولیس کو فون کرنے کا مشورہ دیا، جب گاڑی بند تھی تو خاتون نے موٹروے پولیس کو بھی فون کیا مگر موٹر وے پولیس نے مبینہ طور پر کہا کہ کوئی ایمرجنسی ڈیوٹی پر نہیں۔

اتنی دیر میں دو مسلح افراد وہاں آئے اور کار کا شیشہ توڑ کر خاتون اور ان کے بچوں کو زبردستی قریبی جنگل میں لے گئے جہاں انہوں نے خاتون کو بچوں کے سامنے مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا اور ان سے طلائی زیورات اور نقدی چھین کر فرار ہوگئے۔

کچھ دیر بعد وہاں ڈولفن فورس کے اہلکار پہنچے اور خاتون کی حالت خراب ہونے پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ خاتون کے رشتے دار کی مدعیت میں پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کردیا۔

شفقت کو پولیس نے واقعے کے چار روز بعد 13 ستمبر کو دیپالپور سے گرفتار کیا تھا جبکہ عابد ایک ماہ تک فرار رہنے کے بعد 12 اکتوبر کو لاہور کے نواحی علاقے مانگا منڈی سے اپنے والد کی مدد سے گرفتار ہوا۔

عابد کی گرفتاری ایک ماہ تک پولیس کے لیے چیلنج بنی رہی کیونکہ متعدد بار وہ پولیس کو اطلاع ملنے کے بعد چھاپے کے دوران فرار بھی ہوا۔

اس واقعے کے بعد ملک بھر میں سماجی اور خواتین کی تنظیموں نے احتجاج کیا۔ اس دوران سابق سی سی پی لاہور عمر شیخ کی جانب سے دیے گئے اس بیان پر کہ خواتین رات کو اکیلی سفر کریں گی تو اس طرح کے واقعات تو ہوں گے، احتجاج میں شدت آ گئی تھی۔

مظاہرین نے عمر شیخ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے مطالبے پر تو عمل نہ ہوا تاہم کچھ عرصہ پہلے پنجاب حکومت نے کارکردگی بہتر نہ ہونے پر انہیں ہٹا دیا۔

فوجداری قوانین کے ماہر فیصل باجوہ نے آج کے عدالتی فیصلے پر اپنی رائے کچھ یوں دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان