پاک، بھارت تعلقات کے نئے دور کی شُنید ۔۔ کچھ اہم سوالات

پاکستان بھارت کے تعلقات ضروری ہیں لیکن اس نہج پر نہ چلے جائیں کہ یہ پاکستان کے لیے ایک ٹریپ بن جائیں۔

تعلقات میں بہتری کے خواہاں سرحد کے دونوں جانب موجود ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

حال ہی میں حکومت پاکستان بالخصوص نیشنل سکیورٹی ڈویژن نے اسلام آباد ڈائیلاگ منعقد کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ڈائیلاگ تھا، جس کا مقصد حکومت پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کی سوچ کے بارے میں دنیا کو باور کروانا اور ملک کے اندر بھی اس پر بحث کرنا تھا۔

ڈائیلاگ کا موضوع یہ تھا کہ پاکستان جیو پولیٹکس سے جیو سکیورٹی کی طرف بڑھ گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس موضوع کی جانب یقیناً پہلی مرتبہ رجوع نہیں کیا گیا۔ اس پر پچھلے پندرہ بیس سالوں سے، جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، غور ہو رہا تھا۔ اس کے بعد 90 کی دہائی میں وسطی ایشیائی ریاستیں بین الاقوامی منظر نامے پر نمودار ہوئیں تو اس وقت کوئٹہ میں ای سی او سمٹ کیا گیا تھا۔ یہ میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔

اس وقت بھی یہی بات تھی کہ جیو اکنامکس کی طرف بڑھا جائے۔ یہ کسی ایک حکومت کی بات نہیں ہے۔ حکومت چاہے مسلم لیگ ن کی ہو، پیپلز پارٹی کی رہی ہو یا جنرل پرویز مشرف کی، سب نے جیو اکنامکس پر زور دیا۔ جب شوکت عزیز وزیر اعظم تھے تو انہوں نے ٹریڈ اور انرجی کوریڈورز کی بات کرنا شروع کی۔ اس سے قبل بھی بات ہوئی اور بعد میں بھی بات ہوتی رہی۔

بہرحال آج جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ منتخب حکومت اور فوجی کمانڈ اس کو ایک ہی طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت حکومت کیا ہر ادارہ نیشنل سکیورٹی کو جیو اکنامکس کے پیرائے میں دیکھ رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیو پولیٹکس اور جنگی دھمکیاں ختم ہو گئیں لیکن پاکستان اپنے آپ کو پاکستانیوں اور دنیا میں انگیج کرنے کے لیے ایک اقتصادی روٹ کو لے کر چل پڑا ہے۔ اس میں ظاہر ہے کہ گوادر اور سی پیک کا نہایت کلیدی کردار ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہو رہی لیکن جو حالات ہیں انہی حالات میں پاکستان تجارت اور کامرس سے منسلک ہے، چاہے بارڈر پوسٹیں ہوں، چاہے طورخم پر کنٹینرز کو کلیئرنس دینا ہے، یا جو بھی ہو سب میں تیزی لائی جائے۔

پاکستان اور افغانستان کے جتنے بھی کراسنگ پوائنٹ ہیں اور ایران سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائی جائے تاکہ تجارت میں تیزی اور پھیلاؤ آئے۔ پاکستان کی مغربی بارڈرز اور اس سے آگے سینٹرل ایشیا، چین، ایران، روس اور مغربی یورپ وغیرہ تک رسائی کا حصول درست ہے۔

اس دو دن کے ڈائیلاگ کا دلچسپ پہلو اس میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ اور آرمی چیف کے پالیسی بیانات تھے۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تقریر کے بعد سوال جواب میں جو باتیں کیں، ان میں بہت سے اہم نکات سامنے آئے، جن میں تین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

نمبر ایک پاکستان بھارت کے تعلقات میں پیشرفت۔ تمام پالیسی تقاریر میں یہ بات عیاں تھی کہ پاکستان خطے میں ہر طرف تعلقات بڑھانا چاہتا ہے خاص طور پر اقتصادیات کے حوالے سے بھارت سے تعلقات بڑھانے کے معاملے میں کشمیر کا مسئلہ پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاچن کے بھی معاملات غور طلب ہیں۔

اسلام آباد ڈائیلاگ میں جو بات کی گئی اس سے تو یہ ظاہر ہوا کہ حکومت وقت کی توقعات ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات بہت تیزی سے بہتری کی طرف جائیں گے اور تیزی سے کچھ معاملات حل بھی ہوں گے۔ کچھ بات ہوئی low hanging fruits کی۔ کہ اس پر پیش رفت ہوسکتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بڑے اچھے اشارے آئے ہیں بھارت سے اور یہ بھی کہ بحیثیت ایک ادارہ سارک میں بھی پیشرفت کے امکانات بہت قوی ہیں۔

کشمیر کے حوالے سے بھی کچھ توقعات کا اظہار ہوا کہ اس پر کچھ بہتری ہوگی۔ اس میں وزیر اعظم کی بات کہ بھارت کو کشمیریوں کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے پڑیں گے اہم تھی۔ پاکستان کی ایک پالیسی رہی ہے کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو جو قدم اٹھایا جس میں جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کر دیا اور نہ صرف ضم کیا بلکہ اس کو تقسیم بھی کر دیا ہے، لہذا جب تک وہ اس کو واپس نہیں لیتا اس وقت تک بات چیت کا سلسلہ شروع نہیں ہوگا۔

ان تمام باتوں سے واضح یہ ہوا کہ پاکستان کی بھارت سے توقعات کافی ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کیا توقعات ہیں۔ اس پر کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔ بہرحال تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بھارت نے سیاچن اور سرکریک کے معاملات پر بھی جب بات چیت شروع کی اور اس نے طول پکڑا اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ اب اگر بھارت کی جانب سے پاکستان کو ان چیزوں پر پیش رفت کی یقین دہانی ہو تو پھر مختلف بات ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات یقیناً بہتر ہونے چاہییں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے تعلقات سے کیا ملتا ہے اور یہ بھی ذکر ہوا کہ تعلقات کی بہتری سے بھارت کو وسطی اور مغربی ایشیا تک زمینی راستہ ملے گا۔ اس سے بھارت کو بہت بڑا فائدہ ہوگا چاہے وہ پاکستان کے راستے تجارتی یا انرجی راہداری ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان کشمیر کے معاملے پر اپنی پوزیشن میں نرمی پیدا کرتا ہے یا نہیں؟ پاکستان کو اس میں کیا حاصل ہوگا؟ البتہ یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ بھارت کو انرجی سکیورٹی بھی چاہیے اور اسے کشمیر میں بھی مسئلے کا بین الاقومی سطح پر حل چاہیے۔ مودی کی پالیسیز سے ان کی اپنی کردار کشی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے بھارت پر ایک دباؤ تو ہے۔ یہ بھارت کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔

پاکستان مغربی اور وسطی ایشیا کے ساتھ تعلقات آگے بڑھا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ پاکستان نے دیکھنا ہے کہ بھارت سے بہتر تعلقات کی جو بات ہو رہی ہے، اس میں پاکستان اور بھارت کیا اس راستے پر چل پائیں گے۔ کیا اس راستے پر win, win دونوں کے لیے ہوگی یا بھارت کو زیادہ فوائد حاصل ہو گے؟

پاکستان اور بھارت کی ایک تاریخ ہے۔ تعلقات میں بہت پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ ان کو کس طرح سے سلجھایا جائے گا اس میں تمام اداروں، وزارت خارجہ، سکیورٹی کے سٹیک ہولڈرز سمیت تمام اداروں کو مل بیٹھ کر دیکھنا ہوگا کہ آگے بڑھنے کا سب سے بہتر راستہ کون سا ہے۔ بھارت کے کلبھوشن یادو ہوں یا ای یو ڈس انفارمیشن لیب کا کام یا پھر افغانستان میں بھارت نے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانےکی کوشش کی وہ سب عیاں ہیں۔ بات چیت ہی کا راستہ بہترین ہے لیکن بات چیت بھی سوچ سمجھ کر ہو اور تاریخی سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پاکستان درست فیصلے کر پائے گا۔

ایک اہم جڑا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ اس سب کا چین پر کیا اثر ہوگا؟ کیا چین کے ساتھ ہماری اس پر بات ہوئی ہے؟ چین میں ایک احساس ہے کہ دونوں دوست ممالک میں شاید سی پیک کے معاملے پر کچھ سردمہری ہے۔ پاکستان کو دیکھنا ہے کہ اس کا بین الاقوامی طور پر اولین رشتہ کون سا ہے۔ امریکہ اور بھارت اورجو (Quad) ہے یہ مل کر اپنا چائنا کنٹینمںٹ پلان بنا رہے ہیں، تو پاکستان کو یہ بڑا واضح طور پر دیکھنا ہے کہ وہ اس منصوبے کا حصہ نہ بنے۔ پاکستان بھارت کے تعلقات ضروری ہیں لیکن اس نہج پر نہ چلے جائیں کہ یہ پاکستان کے لیے ایک ٹریپ بن جائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ