’مر ویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘ کے خالق ہوش محمد شیدی کی قبر کا معمہ

حیدرآباد کے قریب میانی کے میدان میں انگریزوں کا مقابلہ کرنے والے سندھ کے فرزندوں میں ہوش محمد شیدی بھی شامل تھے، جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

حیدرآباد اور سندھ میں مقیم شیدی برادری نہ صرف ہرسال ہوش محمد شیدی کا جنم دن اور برسی کا دن مناتی ہے بلکہ وہ ان کے مزار کی تعمیر اور مرمت کا کام بھی اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں (تصویر: اینشینٹ پاکستان فیس بک پیج)

حیدرآباد سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر میانی کا علاقہ واقع ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے سندھ کے فرزندوں نے انگریز وں کا مقابلہ کیا تھا اور ان ہی میں ہوش محمد شیدی بھی شامل تھے۔

اس میدان کا دورہ کرنے والے سندھ کے صحافی حفیظ اختر کہتے ہیں کہ میانی کا میدان جہاں پر کبھی جنگ ہوئی تھی اور کئی لوگ مارے گئے تھے۔ وہاں اب گلاب کے پھول ہیں۔ 

حفیظ کے بقول: ’میانی کا یہ میدان اب گلاب کے پھولوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ گلاب کے پھولوں کی خوشبو سے مہکتا ہے۔‘ 

حفیظ اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میانی کے میدان کے ساتھ جنگ کے دوران مارے جانے والے انگریز اور سندھیوں، جن میں ہوش محمد شیدی بھی شامل ہیں، کی یادگاریں موجود ہیں جبکہ یادگاروں کے ساتھ ایک اجتماعی قبر بھی موجود ہے۔ 

 حفیظ کے مطابق: ’جب میں نے ہوش محمد کی قبر کی تلاش کے لیے تحقیق کی تو لوگوں نے بتایا کہ قبر حیدرآباد میں نہیں میانی کے میدان کے قریب ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہوش محمد کی پیدائش سندھ کی نہیں بلکہ وہ کہیں سے بطور غلام لائے گئے تھے، تاہم بعض لوگ اسے مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش سندھ میں ہوئی۔‘

 سندھ کی تاریخ میں بڑے نام گزرے ہیں، جنہوں نے انگریزوں کے خلاف نہ صرف جنگ لڑی بلکہ انہوں نے مخالف کو بھی مجبور کردیا کہ وہ بھی ان کی بہادری اور شجاعت کی تعریف کریں۔ 

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی طرف سے سندھ کو تقسیم کرنے کے حوالے سے بیان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ’مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘ کا نعرہ لگایا۔ 

 یہ نعرہ بنیادی طور پر کس نے اور کب لگایا؟ اس کے لیے ہمیں تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ 

 یہ 1843 کا دور ہے جب انگریز نے حیدر آباد کی طرف پیش قدمی کی تو کچھ لوگوں نے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ انہی میں سے ایک ہوش محمد شیدی بھی تھے، جن کو ہوشو شیدی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 

 ہوش محمد شیدی نے اس جنگ میں وہ داد شجاعت دکھائی کہ انگریز کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ’لگتا ہے نپولین کی فوج کا کوئی سپاہی ہمارے خلاف لڑ رہا ہے۔‘ 

 ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ دان ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ اگر ہم ہوش محمد شیدی کے حوالے سے تاریخ کو دیکھیں تو ان کا تذکرہ تین جگہ ہمیں ملتا ہے۔ 

 جنرل چارلس نیپئر اپنی کتاب ’سندھ کے فاتح‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب حیدرآباد کی جنگ ہو رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو بے جگری سے لڑ رہا تھا، وہ ایسے لگتا تھا کہ جیسے بنا ہی جنگ کے لیے ہے۔ اس کی جنگ کا انداز دیکھ کر لگتا کہ جیسے نپولین کی فوج کا تربیت یافتہ سپاہی لڑ رہا ہے۔‘  

چارلس ولیم نیپئر لکھتے ہیں کہ ’یہ وہ بندہ ہے، جس کو میانی کی جنگ، دوبے کی جنگ اور حیدرآباد کی جنگ میں دیکھا گیا۔‘ 

 ہوش محمد شیدی کی تلاش 

 لاشاری کے بقول: ’جب یہ کتابیں سامنے آئیں اور ہوش محمد شیدی کا تذکرہ سامنے آیا تو لوگوں کو تجسس ہوا کہ یہ کون ہیں اور ان کا حسب نسب کیا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ جنگ کی تاریخ فاتح لکھتا ہے اور مفتوحہ قومیں اس کو یاد کرتی ہیں تاکہ اپنی ماضی کی غلطیوں کوجان سکیں۔‘ 

لاشاری کے مطابق: ’ہوش محمد شیدی کے حوالے سے 50 کی دہائی میں تحقیق شروع ہوئی اور ڈاکٹر نبی بخش نے اس پر کام شروع کیا اور انہوں نے 1962 کے لگ بھگ ان کے دو پسماندگان میں سے دو کے نام بھی بتائے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ہوش محمد انہی دنوں پیدا ہوئے جب میر فتح علی تالپور کے ہاں 1801 میں امیر صوبدار پیدا ہوئے۔ ہوش محمد ان کے ہم عمر تھے اور خاندانی روایت بھی ہے کہ وہ بھی اسی گھر میں ملازم کے ہاں پیدا ہوئے۔ 

ڈاکٹر کلیم لاشاری نے بتایا کہ ’ماضی میں بڑے لوگوں میں سخاوت ہوتی تھی اور وہ بعض اوقات غلاموں کے بچوں کی تربیت بھی اپنے بچوں کی طرح کرتے تھے۔ یہی صورتحال ہوش محمد کے حوالے سے بھی سامنے آئی۔‘ 

’ ہوش محمد اور میر صوبدار دونوں ایک ساتھ بڑے ہوئےاور اکٹھے جوان ہوئے۔ بعد میں ہوش محمد، میر صوبدار کے خدمت گار بن گئے۔ ظاہر ہے کہ بعد میں ان کو جو حربی تربیت ملی وہ ان کا حق بنتا تھا۔‘ 

ولیم نیپئر نے تصدیق کی ہے کہ میر صوبدار کی فوج کا بندہ تھا، جو میر نصیر کے بندوں کے ساتھ مل کر میانی کی جنگ کے لیے چلا گیا۔ 

کلیم اللہ کے مطابق: ’میانی کی جنگ میں بلوچوں کو شکست ہوئی، تاہم ہوش محمد میر شہداد کے ساتھ مل گئے، جو اسی جنگ میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔‘

ہوش محمد شیدی کی قبر کا معمہ  

ڈاکٹر کلیم لاشاری نے بتایا کہ 1960کی دہائی میں بہت سے لوگوں کو شوق ہوا کہ ہوش محمد کی قبر کو ڈھونڈ نکالا جائے۔ اس دوران کچھ لوگ 24 مارچ 1843 کی حیدرآباد کی جنگ کی جگہ پہنچے۔ یہ علاقہ اب چھنڈو ناریجو کا گاؤں کہلاتا ہے۔ جہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ہوش محمد کی قبر گاؤں کے قریب ہے۔

 اب یہ بات ان لوگوں کے لیے بحث کا موضوع بنی کہ سندھی فوج کے بہادر سپاہی جن کو انگریزوں نے حیدر آباد کے قلعے میں دفن کیا، وہ کون ہیں۔اس پر کافی بحث ہوئی اور علی محمد راشدی، غلام علی نےلے دے کی۔ 

ابھی یہ بحث جاری تھی کہ کیپٹن معین نے ایک مقالہ  چھاپ دیا جس میں انہوں نے بہت محنت کےساتھ تگ ودو کرکے یہ ثابت کیا کہ حیدر آباد کے قلعے میں جس مجاہد کی قبر ہے وہ ہوش محمد کی ہے۔ 

ان کے مطابق: ’ہوش محمد، میر جان محمد تالپور اور میر محمد خان تینوں نے ولیم نیپئر کے خلاف داد شجاعت دی تھی، جو حیدرآباد کی جنگ میں مارے گئے تھے۔ اب آپ دیکھتے ہیں کہ دونوں کی قبریں، جن میں تدفین عزیز و اقارب نے کی ہیں، وہ موجود ہیں۔ جس بہادر کا ذکر ہورہا ہے، اس کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے۔‘ 

’ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ تو ایسی بات ہے جو منطقی ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو قبر قلعے میں ہے وہی ہوش محمد کی ہے۔‘

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بھی یہ کہتے ہیں کہ ’ 1966 میں یہ بحث چل رہی تھی اور ہم نے شروع سے یہ سنا ہے کہ سرکاری ریکارڈ میں بھی یہی ہے۔ تاہم ہر چیز کو واضح کرنے کے لیے ذرائع ہونے چاہییں، لیکن یہاں وہ ذرائع موجود نہیں ہیں۔ 

 ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہمیں حیدر آباد کے قلعے میں دو قبروں کا معلوم ہے تو لامحالہ تیسرا ہوش محمد ہی رہ جاتے ہیں۔‘  

 جان جیکب، جن کے نام سے سندھ کا شہر جیکب آباد مشہورہے، نے بھی سندھ کی تاریخ کے حوالے سے لکھا ہے۔ جب وہ حیدرآباد میں تعینات تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے لکھا کہ ’چھنڈو ناریجو میں 42-1930 کے درمیان کا واقعہ ہے، جب انہوں نے علاقے کا دورہ کرکے لوگوں سے کہا کہ میں ہوش محمد کی قبر دیکھنا چاہتا ہوں، جس پر لوگوں نے انہیں قبر دکھائی تو انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ یہ قبر ہوش محمد کی ہے۔‘ 

کلیم لاشاری کے مطابق: ’جان جیکب نے جب یہاں کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی کتاب میں اس حوالے سے کوئی تاریخی حوالہ نہیں دیا۔ ان کا دورہ کوئی اسی پچاسی سال کے بعد ہوا۔‘ 

 ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری نے مزید کہا کہ ان کی اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ جو قبر حیدرآباد کے قلعے میں ہے، وہی ہوش محمد شیدی کی قبر ہے اور ان کی وفات کادن 24 مارچ ہے۔ 

خطے کی صورتحال

اٹھارویں صدی سے اورنگزیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں ان کے تینوں بیٹوں میں جنگ چھڑ گئی، جس سے مغل بادشاہوں کی کمزوریاں واضح ہوتی گئیں۔اورنگزیب کی اپنی حکومت کے 26 سال کے بعد ہندوستان انتشار کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔ 

اسی طرح مرہٹہ اور روھیل الگ ہوگئے۔ نادر شاہ کا واقعہ ہوا اور پھر احمد شاہ ابدالی نے حملے شروع کردیے جبکہ سکھوں نے اپنی ریاست قائم کی۔ 

اسی دوران ایسٹ انڈیا کمپنی نمودار ہوتی ہے۔ اس کو نظر آیا کہ یہاں پر ہر کوئی آپس میں لڑ رہا ہے تو اس نے آہستہ آہستہ علاقوں کو فتح کرنا شروع کیا جبکہ بعض ریاستوں نے ان سے الحاق کرلیا۔ 

سندھ اور پنجاب آخری ریاستیں تھیں جو 1843اور 1849 تک رہیں، لیکن پھر انگریز کی سازشوں کا شکار ہوگئیں۔ 

لاشاری نے بتایا کہ انیسویں صری میں تالپور سندھ پر حکمران تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریز کو نپولین سے خطرہ تھا اور انہیں خوف تھا کہ فرانس کی طاقت بھی کوئی شاخسانہ کھلائے گی۔ 

انگریز نے اپنا بندوبست کرنے کے لیے 1804 میں سندھ کے ساتھ معاہدہ کرلیا، جس پر دستخط نہیں ہوئے۔ اس دوران 1806میں ایک معاہدہ ہوا اور 1930-1911  میں بھی ایسے سلسلے چلتے رہے، جن میں انگریزوں نے سندھ کے ساتھ نہ لڑنے کے معاہدہ کر رکھےتھے۔ 

 لاشاری کے بقول: ’پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چارلس نیپئر آتے ہیں، جنگ نہ کرنے کا معاہدہ بھی ہے۔ ایک دشمن دوسرے کا بھی دشمن سمجھا جائے گا، لیکن اس معاہدے کی توثیق نہں ہوسکی تھی۔ تاہم دوسری طرف انگریز پیش قدمی جاری رکھے ہوتے ہیں۔ اس وقت جو بلوچ قبائل تھے، جیسے نظامانی اور لغاری وغیرہ، سب کہہ رہے تھے کہ انگریز کے تیور ہمیں اچھے نہیں لگ رہےہیں۔‘ 

 وہ کہتے ہیں کہ اس دوران نیپئر نے خیرپور میں دخل اندازی شروع کی، جس پر ان قبائل کا غم و غصہ مزید بڑھ گیا اور انہوں نے حیدرآباد میں انگریز ریڈنسی پر حملہ کردیا جہاں ریذیڈنٹ اپنے دستے کے ساتھ موجود تھا۔ 

ڈاکٹر کلیم کے مطابق: ’یہ جنگ نہیں تھی بلکہ ایک غصہ تھا۔ اس تناؤ کے نتیجے میں میانی کی جنگ کی صورتحال پیدا ہوئی۔ میانی حیدر آباد اور ہالہ کے درمیان واقع علاقہ ہے۔‘ 

وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں بڑی بڑی حکومتوں کے پاس، جن میں ایرانی اور رومن شامل تھے، باقاعدہ فوج رکھنے کا رواج تھا۔ 

 اسی طرح ہندوستان میں اشوک، اکبرکے پاس فوج کے عہدوں کا نظام منصب موجود تھا، لیکن اٹھارویں اور انیسویں صدی میں سندھ میں یہ نظام موجود نہیں تھا۔ 

انہوں نے بتایا کہ اس وقت سندھ میں سردار یا نواب تھے، جو جنگ کی صورت میں اپنے لوگوں کو جمع کرکے جتھہ بناتے تھے۔ ان میں سپاہی، صوبیدار اور جونیئر کمیشن افسر کا تصور موجود نہیں تھا۔ 

 لاشاری کے مطابق: ’ہمیں میر صوبدار کے دور میں ان کے لوگوں میں تربیت نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں توپ خانے کا نظام بھی تھا۔ جس کے سربراہ ہوش محمد شیدی تھے۔‘ 

حیدرآباد کی جنگ کے حوالے سے بتاتے ہوئے ڈاکٹر لاشاری نے بتایا کہ یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب یہ جنگ ہونے والی تھی تو اس سے قبل گاؤں کے قریب موجود بارود میں آگ لگ گئی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس آگ لگنے کے پیچھے کوئی سازش تھی، کیوں کہ جنگ کے لیے بارود کا ہونا ضروری ہے۔  

وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ جنگ کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا، لیکن دشمن کے عزائم کافی خطرناک تھے، لہذا ہوش محمد اور ان کے دیگر ساتھی ہمت اور دانشمندی سے ڈٹ گئے۔

ان کے بقول: ’نہ صرف ہوش محمد شیدی مرویسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگاتے رہے بلکہ ولیم نیپئر لکھتے ہیں کہ ’وہ لوگوں اکٹھا کرکے جنگ کی طرف لاتے رہے۔‘

 دوسری جانب حیدرآباد اور سندھ میں مقیم شیدی برادری نہ صرف ہرسال ہوش محمد شیدی کا جنم دن اور برسی کا دن مناتی ہے بلکہ وہ ان کے مزار کی تعمیر اور مرمت کا کام بھی اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں۔ 

 حیدآباد سے تعلق رکھنے والے قادر بخش شیدی جو الحبش شیدی جماعت کے نائب صدر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ ہوش محمد کی قبر حیدرآباد یونیورسٹی کے قریب ناریجانی کے علاقے میں ہے۔ 

قادر بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہوش محمد کی برسی اور جنم دن پر مزار پر تقریبات اپنی مدد آپ کے تحت مناتے ہیں اور دو سے ڈھائی سو لوگ اس دوران شرکت کرتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ ہوش محمد مرزا کے خاندان کے لوگ مرزا پھاڑو میں رہتے ہیں، لیکن وہ اتنے فعال نہیں ہیں۔ 

 قادر کے بقول: ’ہوش محمد کے مزار کی تعمیر اور مرمت کے لیے پہلے ہم خود کام کر رہے تھے، لیکن جب 2018 میں آصف علی زرداری صدر تھے تو ہم نے ان کو خط لکھا تھا، جس کے بعد پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری  مزار پر آئے اور انہوں نے اس کی تعمیر کا اعلان کیا، جس کے بعد مزار کا ایک نقشہ بھی بنایا گیا اور فنڈز بھی جاری کیے گئے لیکن کچھ پیسے خرچ کرنے کے بعد یہ کام روک دیا گیا۔‘  

 ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے اپنے ہیروز کو یاد کرنا ہے تو تواتر کے ساتھ کرتے رہیں تاکہ آنے والی نسل کو ہماری خامیوں اور کمزوریوں کا علم ہوسکے۔‘ 

 ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہماری صورتحال وہی ہوگی جب انگریز سندھ میں داخل ہوئے تو ہم ان کے عزائم کو بھانپ نہ سکے اور آہستہ آہستہ وہ اس پر قابض ہوگئے۔‘ 

گوکہ پاکستان پیپلز پارٹی ہوش محمد شیدی کے نعرے کو سیاسی طور پر استعمال کرتی ہے، لیکن شیدی برادری کے سرکردہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم برسی اور جنم دن خود مناتے ہیں، سرکاری طور پر کوئی تقریب نہیں ہوتی۔  

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ