ملکہ سبا کے دیس میں امن کی تلاش

سعودی عرب سے زیادہ امن کی ضرورت خود یمنیوں کو ہے۔ بدامنی اور بحران سے علاقائی تنازعات کی حدت میں تیزی آ رہی ہے۔ امن کے لیے کوشش کرنا سب ہی کے مفاد میں ہے۔

یمن میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ایک بچی (اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


یمن میں منصور عبد ربہ ہادی کی کمزور حکومت اور حوثی باغی تحریک کے مابین لڑائی کا آغاز سنہ 2014 میں ہوا۔ اس لڑائی میں ایک برس بعد اس وقت شدت آئی جب سعودی عرب اور آٹھ دیگر عرب ریاستوں نے، جنھیں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی حمایت حاصل تھی، حوثیوں کے خلاف فضائی حملے شروع کیے۔

چھ برسوں سے جاری یمن کی جنگ میں ایک اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔اس تنازع نے لاکھوں یمنی باشندوں کو فاقہ کشی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

امریکہ نے اپنے سابق صدور باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکمرانی میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کی حمایت کی تھی۔ آج یہی ممالک اور یورپی یونین مکمل یکسوئی کے ساتھ یمن جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی پیش کردہ نئی تجاویز کا خیرمقدم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یمن بحران حل کے لیے سامنے آنے والی حالیہ سعودی پیش کش صرف جنگ بندی ہی نہیں بلکہ جنگ زدہ یمن میں وسیع البنیاد سیاسی مفاہمت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس پیش کش کے مطابق صنعا کا ہوائی اڈا مخصوص شہروں سے اندرون اور بیرون ملک پروازوں کے لیے کھولا جائے گا۔

حالیہ منصوبہ یمن کے استحکام اور سلامتی کی خاطر کی جانے والی سعودی کوششوں کا ایک تسلسل ہے۔ منصوبے کے تحت قیام امن کے لیے سنجیدہ تعاون کے ذریعے بحران کا خاتمہ اور برادر یمنی عوام کی مشکلات میں کمی لائی جائے گی۔

بحران کے خاتمے کے لیے پیش کیے جانے والے سعودی منصوبے میں دوٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ یمن میں جنگ بندی کی نگرانی اقوام متحدہ کرے گا۔ سٹاک ہوم میں طے پانے والے طریقہ کار کے مطابق ٹیکسوں اور کسٹم کے محصولات سے حاصل ہونے والی آمدن الحدیدہ کے مرکزی بینک میں جمع کرائی جائے گی، جسے حوثی اور یمنی حکومت کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا تاکہ ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔

بحران کے خاتمے اور سیاسی حل کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ یہ مذاکرات عالمی ادارے کی قرارداد 2216 اور خلیج امن منصوبہ کے فریم ورک میں آگے بڑھائے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کی نگرانی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی حوثیوں سے سعودی منصوبے کے تحت مذاکرات کا آغاز ہو گا کیونکہ ماضی میں کسی نگران فورم کی غیر موجودگی کی وجہ سے حوثیوں نے ہر منصوبے کو من مانی کر کے خراب کیا جس سے بحران کے حل کی کئی کوششیں سبوتاژ  ہوئیں۔

حوثیوں کو یمن میں اس وقت ایک سے زیادہ محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے۔ یو این منشور کے باب ہفتم کے تحت منظور کی جانے والی قرار داد 2216 کی روشنی میں عرب اتحاد نے مآرب میں دفاعی فوجی آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے۔

یمن میں جنگ کے خاتمے کی حالیہ کوشش کو حوثی باغیوں کے سعودی عرب پر بڑھتے ہوئے ڈرون اور بیلسٹک میزائل حملوں کا نتیجہ قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ امن کی پہلی کوشش کا آغاز خود حوثیوں نے 2016 میں کیا۔

حوثیوں ایسے گروہ کے ساتھ کیے جانے والے امن مذاکرات میں ایک مشکل یہ درپیش رہتی ہے کہ وہ ہمیشہ امن قائم کرنے کا عزم لے کر سعودی دارالحکومت ریاض سے روانہ ہوتے ہیں اور یمن کے شہر صعدہ پہنچتے ہی ان کی قیادت اس معاملے پر یو ٹرن لے لیتی ہے۔

حوثی خود کو «أنصار الله» کہلانا پسند کرتے ہیں۔ عملی طور پر ان کے تصرفات لبنانی «حزب الله» سے ہم آہنگ ہیں۔ تہران کی اجازت کے بغیر ان میں ایک قدم اٹھانے کا یارا نہیں۔ تہران کے ہم پیالا اور ہم نوالہ یہ راگ الآپتے تھکتے نہیں کہ ’ہماری باگ دوڑ ایران کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ہم اپنی قسمت کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔‘ ایرانی اثر ونفوذ ایسی کھلی حقیقت کو وہ محض ’تاثر‘ کا نام دے کر خود فریبی کے ساتھ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

فکری انحصار اور تہران میں ولی الفقیہ کی قیادت پر ایمان کے علاوہ حوثیوں کے یمن میں فوجی نظام تک ایران چلاتا ہے۔ یمن میں جدید جنگی ساز وسامان چلانے والے ماہرین اور سپاہ لبنانی ملیشیا «حزب الله» سے تعلق رکھتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حوثی، یمن میں امن یا جنگ کا انتخاب تہران کی مرضی کے بغیر نہیں کر سکتے۔

ایسے میں متذبذب حلقوں کا یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ حوثیوں کی کہہ مکرنیوں کی تاریخ اور ایران کے ساتھ سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں یمن میں قیام امن کی نئی کوشش چہ معنی دارد؟

اس وقت حوثیوں کے دسترخوان پر سجائی جانے والی ’امن کی سوغات‘ گذشتہ برس بھی پیش کی گئی تھی جس میں بحری جہازوں کی الحدیدہ بندرگاہ آمد کی اجازت اور صنعا کے ہوائی اڈے کو پروازوں کے لیے کھولنا بھی شامل تھا۔ پہلے تو «أنصار الله» نے امن کے لیے پیش کردہ شرائط مان لیں اور پھر اگلے ہی لمحے وہ حسب روایت الٹے پاؤں پھر گئے۔

یمن بحران کے حل کی خاطر جامع امن منصوبہ کی نئی پیش کش اس لحاظ سے اچھوتی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت سیاسی منظرنامہ فیصلہ کن معاہدے کے لیے انتہائی ساز گار ہے۔ امن معاہدے کی بیل منڈھے چڑھ گئی تو یہ ایک تاریخی کامیابی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی پابندیوں کے باعث شدید محاصرے کے شکار ایران کی مذہبی قیادت انتہائی پریشان ہے۔ اندھیری غار سے نکلنے کے لیے وہ تہران مخالف ہمسایوں کا تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئی امریکی انتظامیہ کی جوہری معاہدے میں واپسی سے متعلق مہم آسان ہو سکے۔

تہران اس وقت یمن، شام اور لبنان میں جاری اپنی پراکسی وار  کو ’بارگینگ چپ‘ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ متعدد عالمی اور علاقائی فریقوں کی شامی تنازع میں شمولیت کی وجہ سے وہاں صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے۔ لبنان تاحال ایران۔اسرائیل سٹرٹیجک تنازع کا حصہ ہے اور تہران اس پر کسی بھی قسم کا سیاسی جوا کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

زمینی حقائق کے حوالے سے حوثی باغیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مملکت سعودی عرب پر ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کی بارش کر کے اپنی بالادستی ثابت کی، حالانکہ میزائل شکن ائر ڈیفنس سسٹم کو بروئے کار لاتے ہوئے سعودی عرب اب تک یمن سے حوثی شیعہ باغیوں کے داغے گئے 346 بیلسٹک میزائل اور 526 ڈرونز  تباہ کر چکا ہے۔

عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈئر جنرل ترکی المالکی نے ’العربیہ‘ ٹی وی کو بتایا کہ سعودی عرب کے سوا کسی اور ملک نے اتنی بڑی تعداد میں بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کو ہدف تک پہنچنے سے ناکارہ نہیں بنایا۔

یہ اعداد وشمار سعودی عرب کے نقطہ نظر کی بھی تائید کرتے ہیں کہ ریاض، عرب اتحاد کے پلیٹ فارم سے دراصل یمن کی آئینی حکومت اور خود اپنا دفاع کر رہا ہے۔ اس سے مغربی دنیا کا پروپیگنڈا بھی غیر مؤثر ہو جاتا ہے جس میں الزام عائد کیا جاتا ہے کہ مملکت، عرب اتحاد کا سہارا لے کر یمن میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے۔

اس کے مقابلے میں حوثیوں نے بڑی چالاکی سے امریکہ میں قیادت کی تبدیلی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یمنی باغی لڑائی کے دائرے کو وسعت دے کر سعودی عرب کا ناطقہ بند کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے زمینی حقائق تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران انھوں نے مآرب اور تعز کا کنڑول حاصل کرنے کے لیے اپنے حملے تیز کیے تو انہیں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ حوثی جنگجوؤں کو اپنے زیر نگین علاقوں میں دیوالیہ پن اور غربت کے عفریت کا سامنا ہے کیونکہ الحدیدہ بندرگاہ سے کسٹم اور دیگر فیسوں کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کے سوتے اب خشک ہو چکے ہیں۔

اندریں حالات سعودی عرب سے زیادہ امن کی ضرورت خود یمنیوں کو ہے۔ بدامنی اور بحران سے علاقائی تنازعات کی حدت میں تیزی آ رہی ہے۔ امن کے لیے کوشش کرنا سب ہی کے مفاد میں ہے، اس لیے ہمیں امن کو ایک مرتبہ پھر موقع دینا چاہیے، شاید اسی طرح یمن میں کھویا امن کا عَقِیق واپس مل جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ