کیا نجی زمین پر بچہ بغیر لائسنس کے گاڑی چلا سکتا ہے؟

پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی امین گنڈاپور کے کم سن بیٹے کی گاڑی چلانے کی ویڈیو گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے، جسے انہوں نے بظاہر اپنا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے۔

علی امین گنڈاپور نے اپنے کم عمر بیٹے کے گاڑی چلانے کے معاملے  پر تنقید کرنے والوں کو ٹوئٹر  پر جواب دیا (تصاویر:علی امین گنڈا پور فیس بک اکاؤنٹ/ ٹوئٹر)

وفاقی وزیر برائے کشمیر و گلگت بلتستان افیئرز علی امین گنڈاپور کے کم سن بیٹے کی گاڑی چلانے کی ویڈیو گذشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علی امین گنڈاپور نے بچے کو گاڑی چلانے کی اجازت دے کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

دوسری جانب علی امین نے اسی ویڈیو کے حوالے سے ٹوئٹر پر صحافی منصور علی خان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹریفک قوانین ہائی وے، سڑک یا موٹر وے پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ میرا بیٹا ہے، میری گاڑی ہے اور میری زمین ہے (جس پر بیٹا گاڑی چلا رہا ہے) اور اس سے آپ کا کوئی سروکار نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا ذاتی زمین پر کم سن بچہ یا کوئی بھی شخص بغیر لائسنس کے گاڑی چلا سکتا ہے یا نہیں؟

پشاور ٹریفک پولیس کے سربراہ عباس مجید مروت نے اس ضمن میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون کے مطابق ڈرائیونگ کے لیے لرنر یا مستقل لائسنس صرف انہیں جاری کیا جاتا ہے جن کی عمر 18 سال ہو۔

لرنر ایک اجازت نامہ ہوتا ہے جو لائسنس اتھارٹی اس وقت جاری کرتی ہے جب کوئی شخص لائسنس کے لیے درخواست جمع کرواتا ہے جبکہ لرنر جاری کرنے سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ بھی کروایا جاتا ہے۔

عباس مجید نے بتایا کہ لرنر جاری کرنے کے 45 دن بعد متعلقہ شخص کو پریکٹیکل اور تھیوری کے ٹیسٹ کے لیے بلایا جاتا ہے اور پریکٹیکل ٹیسٹ میں لائسنس اتھارٹی کی جانب سے ایک خاص جگہ پر متعلقہ درخوست گزار سے گاڑی چلانے کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اگر درخواست گزار ٹیسٹ پاس کرلے تو انہیں لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ذاتی زمین پر کوئی شخص بغیر لائنسنس کے گاڑی چلا سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر رائے نہیں دینا چاہتے کیونکہ یہ ان کے ڈومین میں نہیں ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

پاکستان موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 میں بننے والا ایک قانون ہے، جو ملک بھر میں نافذ ہے، جس کے تحت لائسنس، گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے شقیں موجود ہیں۔

اسی قانون کی شق نمبر چار میں درج ہے کہ کسی بھی شخص کا ’عوامی مقام‘ پر بغیر لائسنس گاڑی چلانا جرم تصور ہوگا جبکہ ’عوامی مقام‘ کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ اس سے مراد کوئی بھی سڑک، گلی یا عوامی شاہراہ ہے جس پر عام لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہو۔

اس کے علاوہ بس سٹینڈ، پارکنگ یا انتظار گاہ جہاں مسافر گاڑی کا انتظار کرتے ہیں، بھی عوامی مقام کے زمرے میں آتے ہیں اور یہاں بھی بغیر لائسنس گاڑی چلانا جرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس قانون میں بغیر لائسنس کے ذاتی زمین پر گاڑی چلانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علی امین گنڈاپور نے ذاتی زمین پر گاڑی چلانے کا جو جواز پیش کیا ہے کہ اس پر قانون لاگو نہیں ہوتا تو وہ قانون کے مطابق درست کہتے ہیں۔

طارق افغان نے بتایا کہ ’موٹر وہیکل آرڈیننس میں عوامی مقامات پر بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا جرم مانا گیا ہے جبکہ ذاتی زمین جو عام شاہراہ نہ ہو، پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

تاہم طارق افغان کے مطابق اخلاقی طور پر اگر دیکھا جائے تو کسی کم سن بچے کے ذاتی زمین پر گاڑی چلانے سے عام لوگوں کو تو خطرہ نہیں ہوتا تاہم اس بچے کو اس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’کم سن بچہ گاڑی چلائے گا تو اس کو خدانخواستہ کچھ بھی نقصان ہو سکتا ہے، لہذا والدین کو بہت احتیاط سے اس طرح کے معاملات کو دیکھنا چاہیے۔‘

طارق افغان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بالکل ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی عوامی شاہراہ اور سڑکوں پر ہزاروں لوگ بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلاتے ہیں تو ان کی روک تھام ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا: ’اس سے ایک یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ آج اگر بچہ ذاتی زمین پر گاڑی چلا رہا ہے تو اس سے اسے حوصلہ ملے گا اور کل وہ عوامی شاہراہ پر گاڑی چلانے کی خواہش کرے گا جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔‘

کم سن بچوں کے عوامی شاہراہوں پر گاڑی چلانے کے حوالے سے 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اس بات پر زور دیا تھا کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے گاڑی چلانے پر پابندی کے قانون پر من و عن عمل کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی بچہ گاڑی چلاتے ہوئے پکڑا گیا تو پہلے ان کے والدین کو پولیس سٹیشن بلایا جائے اور ان سے یہ دستخط لیا جائے کہ آئندہ ان کا بچہ ایسا نہیں کرے گا اور اگر دوسری مرتبہ بھی اس بچے نے گاڑی چلائی تو سزا اس کے والدین کو دی جائے۔

پاکستان میں کم سن بچوں کی گاڑیاں چلانے سے ٹریفک حادثات کا کوئی خاطر خواہ ڈیٹا موجود نہیں تاہم امریکی آٹو موبائل ایسوسی ایشن کے اعدادو شمار کے مطابق کم عمر بچوں کے گاڑی چلانے کے نتیجے میں ہونے والے حادثات بڑی عمر کے لوگوں سے چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

امریکہ میں 16 سے 20 سالہ افراد کی اموات میں سر فہرست وجہ ٹریفک حادثات ہیں۔ اسی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کے ٹریفک حادثات کی وجوہات میں بچوں کی کم ڈرائیونگ سکلز، فیصلہ لینے کی کم طاقت اور گاڑی چلانے کے دوران راستے میں توجہ کسی اور طرف مرکوز ہونا شامل ہیں۔

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے 2020 کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر نو ہزار 701 حادثات میں پانچ ہزار سے زائد افراد کی اموات واقع ہوئی ہیں، تاہم اس اعدادوشمار میں عمر کا ذکر نہیں کہ ان حادثات میں گاڑی چلانے والوں کی عمریں کتنی تھیں۔

عمران ٹکر پشاور میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس معاملے کے دو زاویے ہیں جن میں ایک قانونی ہے اور ایک سماجی زاویہ ہے۔

’قانون میں اگر 18 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو گاڑی چلانے کا لائسنس نہیں دیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچہ گاڑی چلانے کا اہل نہیں اس لیے اسے کسی بھی جگہ پر گاڑی نہیں چلانی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’بچوں کو کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، تاہم اس میں والدین کو یہ دیکھنا ہوگا کہ جس سرگرمی میں بچہ حصہ لے رہے ہیں کیا یہ ان کے فائدے میں ہے یا اس سے بچے کو کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ