آزاد ہندوستان کا سیکولرازم

کانگریس نے بھی در پردہ قوم پرستی کی بنیاد ڈالی تھی جس کو بی جے پی نے سیراب کیا جو اب اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ شاید ہی اسے ہندو راشٹر بنانے پر کوئی سیکولر یا اعتدال پسند پارٹی اعتراض کرسکتی ہے۔

(اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


ہندوستان کی سیکولر شبیہ متاثر کرنے کا الزام اکثر بھارتیہ جنتا پارٹی پر عائد کیا جاتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے فورا بعد ان کی پارٹی نے مذہبی منافرت پھیلا کر ایک اچھے بھلے جمہوری اور سیکولر ملک کی عالمی شبیہ مسخ کر دی۔

اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹی کانگریس یا اس سے منسلک رہنماؤں نے بھارت کو دنیا کی بڑی جمہوریت کا درجہ دلایا اور آزادی کے بعد آئین تشکیل دیتے وقت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، مذہب کی آزادی اور ہر شعبے میں یکساں مواقع فراہم کرنے کے عہد سے دنیا کی پذیرائی بھی حاصل کرتے رہے۔

کانگریس کی سیکولر امیج اور بی جے پی کی ہندوتوا پالیسیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بھارت کی تبدیل ہونے والی سیاسی شبیہ پر آئے دن سیمینار منعقد ہو رہے ہیں۔ ان میں شرکت کے دوران اکثر یہ تاثر ملتا ہے کہ کانگریس نے بھی در پردہ قوم پرستی کی بنیاد ڈالی تھی جس کو بی جے پی نے سیراب کیا جو اب اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ شاید ہی اسے ہندو راشٹر بنانے پر کوئی سیکولر یا اعتدال پسند پارٹی اعتراض کرسکتی ہے۔ چند اکا دکا مخالف آوازیں کہیں کہیں پر سنائی دیتی ہیں مگر اکثریت کی رائے کے نیچے وہ خود بخود دب جاتی ہیں۔

معروف محقق اور جنوبی ایشیا کی سیاسیات کی استاد عائشہ جلال لکھتی ہیں کہ ’کانگریس نے آئین میں اقلیتوں کو حقوق دینے کا عہد تو کیا مگر اپنے وعدوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ محض ووٹ بینک سمجھ کر ان کا خوب استحصال کیا۔‘

اقلیتوں سے متعلق کئی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو کبھی پنپنے کا موقعہ نہیں دیا اور پس پردہ ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ جن سے نہ تو ان کو تعلیم یا روزگار کے مواقع ملے اور نہ اپنی قیادت تیار کرنے کی آزادی نصیب ہوئی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی مسلمانوں کی حالت زار کو تفصیل سے بیان کیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی بھی یہی سب کچھ دہرا رہی ہے لیکن وہ کانگریس کے مقابلے میں اپنی پالیسی کی کھل کر تشہیر کرتی آ رہی ہے۔ گجرات فسادات ہوں یا مظفر نگر کے، دہلی کے فسادات ہوں یا مسلمانوں کو سر عام زدوکوب کرنے کے بڑھتے واقعات ہوں ہندوتوا کے کارکن یہ سب دن دھاڑے کرتے ہیں، سرکاری تحفظ کے ساتھ کرتے ہیں اور عدالتوں سے بری بھی ہوتے ہیں۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے ساتھ نہ ہوں تو مسلمانوں سے اس طرح نفرت کا اظہار کرنے کے ہزاروں واقعات نہیں ہوتے۔

بی جے پی نے 2014 میں اقتدار حاصل کرتے ہی آر ایس ایس کے اس منشور کو ہر شعبے میں متعارف کرانا شروع کر دیا جس کی بنیاد کے بی ہیجوار نے 1925 میں اس وقت رکھی تھی جب بھارتی سامراجی طاقت سے آزادی حاصل کرنے کے مشکل مراحل میں داخل ہی ہو چکا تھا۔

دوسری جانب آر ایس ایس کے بطن سے پیدا ہونے والے بیشتر رہنما کانگریس کی چھتر چھایا میں قوم پرستی کو فروغ دے رہے تھے۔ بقول آشیش نیندی ’گاندھی نے بھی کسی حد تک مذہبی علامات کا استعمال کر کے اپنی قوم پرستی کا پرچار کر دیا تھا۔‘ مگر بعد میں یہ الزام محمد علی جناح پر عائد ہوا کہ انہوں نے بھارت میں اسلامی نشانات سے مسلمانوں میں امت کا جذبہ جگا کر برصغیر کو تقسیم کر دیا۔

پنڈت نہرو کانگریس کے واحد رہنما تصور کیے جاتے ہیں جنہوں نے مرتے دم تک مذہبی سیاست کو ناپسند کیا اور اس پر بندشیں قائم کیں تھیں مگر ان کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہی ہندو تنظیمیں اندرونی سطح پر کافی سرگرم عمل ہوگئیں۔

1980 کے دوران بھارتی سیاست میں نئی روش دیکھ کر کانگریس کو احساس ہوگیا کہ آر ایس ایس پر کافی دیر تک عائد پابندی کے باوجود متوسط طبقے کے ہندوؤں میں اس کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں بلکہ اس نے بعض اہم مرکزوں پر اپنے کارکنوں کی عسکری تربیت بھی شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے اس کا دائرہ اثر کافی وسیع ہوتا جا رہا تھا۔

امرتا باسو اپنی کتاب ’The dialectics of Indian Nationalism‘ میں رقمطراز ہیں کہ ’آر ایس ایس کو خود اس بات کا گہرا احساس ہوگیا کہ عسکری تحریک سے اتنا فائدہ ممکن نہیں جتنا عوامی حلقوں میں ہندوتوا ایجنڈا کی سیاسی تشریح کرنے سے ہوگا۔ ہندو تنظیم نے عوامی تحریک کی شکل اختیار کی، ہزاروں شاخیں معرض وجود میں آ گئیں۔ رام مندر کی تعمیر، آرٹیکل 370 کی منسوخی اور یونفارم سول کوڈ جیسے معاملات کو میڈیا کے مباحثوں کا حصہ بنایا جس نے کانگریس کے اندرونی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔‘

بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ بجلی پانی اور سڑک کے مسائل کو جوڑا جو کہ کانگریس کا انتخابی ایجنڈا ہوا کرتا تھا جبکہ دوسری طرف کانگریس نے بنیادی مسائل کے ایجنڈے کے ساتھ مذہبی امور میں دلچسپی ظاہر کرنےکے اشارے دیئے۔

مورخ بریوس گراہم نے کانگریسیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ روایت پسند ہندو ہیں جو ہندو ثقافت، گاوکشی کی مخالفت اور ہندی زبان کو عزیز سمجھتے ہیں مگر وہ ہندو قوم پرستوں سے مختلف ہیں جو مسلمان مخالف ہیں، مسلم دور کو جابر قرار دیتے ہیں، اکثریت کو اہم سمجھتے ہیں جن میں سردار پٹیل سرفہرست رہے ہیں۔‘

سردار پٹیل نے جب گجرات کے ناول نگار کے ایم منشی کے ساتھ مل کر سومناتھ مندر کی تعمیر نو شروع کی تو کہتے ہیں کہ پنڈت نہرو انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئے جب انہوں نے دنیا بھر کے ہندو سفیروں اور عالمی شہرت یافتہ دانشوروں کے مندر کے لیے دیئے جانے والے عطیات کی فہرست دیکھی۔

آزاد بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد سومناتھ مندر کی افتتاح کرنے ہی والے تھے کہ نہرو نے انہیں روکا۔ نہرو بھارت کی سیکولر شبیہ کو بچانا چاہتے تھے جس کی وجہ سے ملک کو پوری دنیا میں پذیرائی حاصل ہو رہی تھی۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ جمہوری نظام کی مضبوطی اور اقتصادی ترقی پر مرکوز کر دی تھی۔

بھارتی سیکولرازم کو مسخ کرنے کا سہرا اندرا گاندھی کے سر جاتا ہے جنہوں نے وزیر اعظم کی حثیت سے پہلی بار ہندو سادھو ستیہ مترانند کے ہردوار میں تعمیر شدہ مندر کا افتتاح کیا جو مورخ ڈاکٹر ڈیوڈ سمتھ کے مطابق ’ہندوستانی سیکولرازم پر پہلا حملہ تھا اور کانگریس کی سیاست کا ایک نیا رخ۔‘

اندرا گاندھی نے نہ صرف مختلف ریاستوں کی جمہوری حکومتوں کو گرا کر آئین کی دھجیاں اڑا دیں بلکہ جموں و کشمیر کے بھارت نواز رہنماؤں پر ملک مخالف تحریک چلانے اور پنجاب میں آپریشن بلیو سٹار کے تحت فوجی کارروائی کے پس پردہ یہ پیغام بھی دیا کہ بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ باقی سبھی اقلیتیں مشکوک ہیں اور ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

ہندوستانی سیکولرازم کو اس وقت ایک اور دھچکا لگا جب 1984 میں اندرا گاندھی کی سکھو محافظوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہندوؤں نے سکھوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جن میں کانگریس کے بعض رہنماؤں کو موردالزام ٹھہرایا گیا ہے اور ہندوتوا کے کارکنوں نے اندرونی طور پر اس کا ساتھ دیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے سخت گیر موقف کو بلائے طاق رکھ کر سماجی تحریک چلانے کی پالیسی اپنائی جس کا مقصد بقول پارٹی کے اکثریتی آبادی کی بہبود اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔ پارٹی نے اعلان کیا کہ سیکولرازم کی آڑ میں ہندوؤں کا کافی استحصال کیا گیا ہے البتہ اعتدال پسندی کا سیاسی لبادہ اوڑھ کر سن نوے میں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

پہلے پہل اونچی ذات کے ہندوؤں میں بی جے پی کا خاصا غلبہ قائم ہوا مگر پارٹی نے دوسرے طبقوں میں ہندو شناخت کو اجاگر کرنے کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں آنے والے انتخابات میں اس کی پوزیشن مستحکم ہوتی گئی۔

وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور جن سنگھ کے ساتھ مل کر رتھ یاترا وں کا سلسلہ شروع کرنے سے نچلے درجے کے ہندووں کو کاروان میں شامل کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوا۔

اٹل بہاری واجپائی کو بظاہر اعتدال پسند ہندو رہنما تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن وہ آزاد بھارت کے پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے ہندو قوم پرستی کا پہلا پیغام دیا جب ایک بھاری مجمعے سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’ہندوؤں کو ملک کے اہم اداروں میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی جمہوریت کی دوبارہ تشریح کرنی پڑےگی۔‘

سکھوں کے خلاف تشدد کے بارے میں یہ انکشافات بھی ہوئے کہ آر ایس ایس کے کارکنوں نے نہ صرف جم کر کانگریس کا ساتھ دیا تھا بلکہ اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں راجیو گاندھی کو شاندار کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

پہلی بار آر ایس ایس کے سربراہ نے کھل کر اعلان کیا تھا کہ کانگریس ملک کی سالمیت کے لیے انتہائی اہم پارٹی ہے جو بظاہر کانگریس کو ہندوتوا پالیسی کی جانب مبذول کرانے کی ایک پہل تصور کی جاتی ہے۔

کانگریس کے کہنے پر ہی سن 1986 میں بابری مسجد رام مندر کو عدالت کے فیصلے کے بعد کھولنے کا اعلان کیا گیا تاکہ ہندوؤں کو مندر میں پوجا کرنے کا موقعہ دیا جا سکے۔ یہ بظاہر سیکولر امیج سے ہٹ کر ہندو قوم پرستوں میں اپنی شناخت بنانے کی جانب اہم پیش رفت تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر جب کانگریس نے 1986 میں مسلم پروٹیکشن بل پیش کیا تو راجیو گاندھی کے دیرینہ ساتھی ارون نہرو نے کہا تھا کہ ’بل کا مقصد مسلم کارڈ کھیلنا ہے جبکہ ایودھیا کو کھولنا ہندو کارڈ کھیلنا ہے جو ایک پیکیج کی صورت میں پیش کیا گیا ہے مگر یہ کانگریس کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوسکتی ہے۔‘

جب سیکولر پارٹی جنتا دل کے رہنما وی پی سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ سیٹوں کی شراکت داری سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو تقریباً 12 فیصد ووٹ کا حصہ دار بنایا جو خود جنتا دل کے لیے زوال کا موجب بنا مگر اس کی وجہ سے بی جے پی باظابطہ طور پر سیاسی افق پر ایک مضبوط پارٹی کی طرح نمودار ہوئی۔

اٹل بہاری واجپائی کی سیکولر جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت اور اعتدال پسند رویے نے بی جے پی کے لیے سیاسی راہ ہموار کر دی۔ جب نریندر مودی نے پہلا انتخاب لڑا تو قوم کی ترقی اور معیشت کو انتخابی ایجنڈا قرار دیا۔ دوسری بار انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد اور راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کے ساتھ ہی ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا جس کے لیے روڈ میپ ہیجوار اور گولوالکر نے آزادی سے قبل تیار کر کے رکھ دیا تھا۔

بی جے پی کی موجودہ پالیسیوں اور حالات سے ہم سب واقف ہیں اور عینی شواہد بھی۔

مسلمان رہنما اسد الدین اویسی نے کئی بار کہا کہ مودی کے جے شری رام کہنے پر اعتراض کیوں نہیں ہوتا جبکہ میرے اللہ اکبر کہنے پر واویلا ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں مغربی بنگال میں انتخابی ریلی سے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے راہول گاندھی، اروند کیجریوال یا ممتا بینرجی اب کبھی چندی پاٹھ یا ہنومان چالیسا پڑھتے ہیں یا مندر میں جا کر بھجن کیرتن کرتے ہیں تاکہ مودی کا مقابلہ کرسکیں اور ہندوؤں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ وہ بھی ہندو مذہب کو ماننے والے ہیں لیکن اگر میں سورہ فاتح پڑھنا چاہتا ہوں تو مجھ پر ملک دشمن کا لیبل چسپاں کیا جاتاہے۔‘

گوکہ اب سیکولر جماعتیں بھی انتخابی ریلیوں میں کھل کر ہندوؤں کی علامتیں یا نشانات کو استعمال کرنے لگی ہیں مگر ہندوؤں کی اکثریت جتنا مودی پر یقین کرتے ہیں اتنا شاید ہنومان کو بھی نہیں مانتے اور اس سے بڑھ کر یہ المیہ کہ دنیا ہندوتوا کی پالیسیوں کے باوجود بھارت کو پھر بھی سیکولر ملک سمجھتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ