صوفہ گیٹ: ترک صدر سے ملاقات میں یورپی کمیشن کی سربراہ کی کرسی

انقرہ میں یورپی یونین کے وفد کی ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کے دوران یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کو نشست فراہم کی گئی لیکن یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وون ڈر لیئن کو نشست کے بغیر کھڑا رہنا پڑا۔

یورپی یونین کے قانون سازوں نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کے دوران کمیشن کی خاتون سربراہ ارسلا وون ڈر لیئن کے ساتھ روا رکھے گئے توہین آمیز رویے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ واقعہ منگل کے روز انقرہ میں اس وقت پیش آیا جب یورپی یونین کا وفد ترک صدر سے ملاقات کر رہا تھا۔ ملاقات کے دوران یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کو نشست فراہم کی گئی لیکن یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وون ڈر لیئن کو نشست کے بغیر کھڑا رہنا پڑا۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کو ’صوفہ گیٹ‘ سکینڈل کا نام دیا گیا ہے، جس میں صنفی امتیاز اور یورپی یونین کے اداروں میں سیاسی گروہ بندی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

یورپی پارلیمنٹ کی ہسپانوی رکن اور سوشلسٹ اور ڈیموکریٹس گروپس کی سربراہ اراتیکس گارسیا پیریز نے اس واقعے کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’یورپی یونین اور ترکی کے تعلقات انتہائی اہم ہیں، لیکن یورپی یونین کا اتحاد اور خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کا احترام بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔‘

یورپی پارلیمنٹ کے رکن نے مزید کہا کہ انہوں نے صورت حال جاننے کے لیے ارسلا وون ڈر لیئن اور چارلس مشیل کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کیا ہے اور یہ کہ ’یورپی یونین کے اداروں کا احترام کیسے کیا جائے۔‘

اس مطالبے کی بازگشت قدامت پسند ’یورپین پیپلز پارٹی‘ کے پارلیمانی بلاک کے رہنما منفریڈ ویبر کے بیان میں بھی سنائی دی، جن کا کہنا تھا کہ انقرہ کا دورہ یورپی یونین کے اعلیٰ عہدیداروں کے مابین ’تفریق کی علامت‘ بن گیا ہے۔

یورپی یونین اور ترک صدر کے ساتھ ملاقات ایک ایسے نازک وقت میں ہوئی ہے، جب یورپی یونین اور ترکی گذشتہ سال بدترین کشیدگی کے سبب اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے  کے خواہاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی کمیشن کی پہلی خاتون سربراہ ارسلا وون ڈر لیئن نے صدر اردوغان کی جانب سے خواتین اور بچوں پر تشدد کے روک تھام سے متعلق استنبول کنونشن سے دستبرداری کے بعد خواتین کے حقوق سے متعلق برسلز کے خدشات پر زور دیا تھا۔

ان کے ترجمان نے ملاقات کے دوران توہین آمیز رویے اور سفارتی آداب کی خلاف ورزی پر تنقید کی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اجلاس سے باہر جانے کی بجائے انقرہ کے ساتھ اس اہم مسئلے پر بات کرنے پر زور دیا۔

ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے اس واقعے کے بعد ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے دوران بیٹھنے کے انتظامات یورپی یونین کے مشورے کے مطابق کیے گئے تھے۔

دوسری جانب چارلس مشیل کو اپنی ساتھی کی حمایت میں نہ بولنے اور واحد دستیاب نشست قبول کرنے پر برسلز میں جوابدہی کا سامنا ہے۔

ایک فیس بک پوسٹ میں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’حقیقت یا میرے گہرے احساسات سے اس کا کچھ بھی تعلق نہیں اور یہ افسوسناک منظر ترک پروٹوکول کی غلطی کا نتیجہ تھا۔‘

اس سکینڈل نے یورپ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس کو یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی تازہ ترین مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یورپ کے فرانسیسی وزیر کلیمنٹ بیون نے کہا: ’انقرہ سے آنے والی ان تصاویر سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے۔ میں ایک بے وقوف یورپ نہیں چاہتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم ان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، جو علامتوں کی قدر جانتے ہیں۔ ہمیں مزید مضبوط ہونا پڑے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا