حوثیوں کا ’مغوی‘ ماڈل انتصار الحمادی پر مقدمہ چلانے کا منصوبہ

حوثی باغیوں نے مغوی اداکارہ پر روایتی اسلامی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔

انتصار الحمادی 2001   میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد یمنی اور والدہ ایتھوپیا سے تعلق رکھتی ہیں (تصویر: بشکریہ   سارہ ساری فیس  بک پیج)

یمن میں حوثی باغیوں کے ہاتھوں مبینہ طور پر اغوا ہونے والی معروف ماڈل انتصار الحمادی کے وکیل خالد محمد الکمال نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا، مغوی ماڈل کے خلاف مقدمہ چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ 

معروف اداکارہ اور ماڈل انتصار الحمادی کو 20 فروری کو درالحکومت صنعا کی ایک سڑک سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا۔

حوثیوں کی جانب سے انتصار الحمادی اور ان کی دو دوستوں کا اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے اغوا، ان سے اختلاف کرنے والی اور لبرل خواتین پر حملوں کے سلسلے کے تازہ ترین واقعات ہیں۔

خالد الکمال نے عرب نیوز کو بتایا کہ حوثیوں کے زیر کنٹرول مغربی صنعا میں ان ہی کے زیر انتظام عدالت کا ایک پراسیکیوٹر اتوار کو انتصار الحمادی سے پوچھ گچھ کرے گا۔

الکمال نے مزید بتایا کہ ’میری مؤکلہ کو وارنٹ کے بغیر گرفتار کیا گیا تھا۔‘

یمنی عہدیداروں نے بتایا کہ یہ تینوں اداکارائیں ایک ڈراما سیریز کی شوٹنگ کے لیے جا رہی تھیں، جب صنعا کی ہدیٰ سٹریٹ پر انہیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

حوثی باغیوں نے مغوی اداکارہ پر روایتی اسلامی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ حوثی ملیشیا انتصار کے کام اور پیشے کو بھی جرم قرار دیتے ہیں۔

انتصار2001 میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد یمنی اور والدہ ایتھوپیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ فیشن ماڈلنگ کے ساتھ ساتھ فلموں میں بھی کام کرچکی ہیں۔ انتصار نے ’سد الغریب‘ فلم سیریز اور ’غرابہ البن‘ نامی فلموں میں ‌بھی کم عمر اداکارہ کا کردار نبھایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے اغوا سے یمن اور ملک سے باہر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومتی عہدیداروں نے حوثیوں کے خواتین کے خلاف روا رکھے گئے سلوک کا موازنہ القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں سے کیا ہے۔

یمن کے وزیر اطلاعات، ثقافت اور سیاحت کے وزیر معمر العریانی نے کہا کہ حوثیوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یمنی خواتین کے خلاف ایک ’باقاعدہ اور منظم‘ کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔

وزیر نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’ہم بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ، امریکہ کے سفیروں اور یمن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس جرم کی مذمت کریں اور دہشت گرد حوثی ملیشیا کے اغوا کاروں پر ماڈل کی فوری رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔‘

الحمادی نے گذشتہ سال ایک مقامی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ والدین اور معاشرتی مزاحمت کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک ماڈل کی حیثیت سے بیرون ملک کام کر سکیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’اگر مجھے یمن سے باہر کام کے مواقع مل سکیں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔‘

دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین بھی حوثیوں کی جانب سے گلیوں سے خواتین کے اغوا کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

یمن کی ایک کارکن ہدیٰ الساراری نے کہا کہ الحمادی کا اغوا خواتین کے خلاف باغیوں کی ’ناپاک‘ مہم کا حصہ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا