جج کے دستخط نہ ہونے سے شہباز شریف کی رہائی کھٹائی میں

دو رکنی بینچ کے سنائے گئے فیصلے میں ن لیگ کے صدر کی ضمانت منظور کر لی گئی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ فیصلے پر ایک جج نے دستخط نہیں کیے۔

عدالت کے عہدےدار کے مطابق اب شہباز شریف کی درخواست ضمانت کا معاملہ ریفری جج یا نئے بینچ کے پاس جائے گا (اے ایف پی)

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست کی منظوری کے فیصلے میں دو رکنی بینج کے ایک جج کا دستخط موجود نہیں۔

یہ معاملہ تب سامنے آیا جب 14 اپریل کو درخواست ضمانت پر سماعت مکمل ہونے پر دو رکنی بینچ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال نے فیصلہ محفوظ کیا۔

معمول کے مطابق کورٹ ایسوسی ایٹ نے ججز چیمبر سے نکل کر فیصلہ سنایا کہ شہباز شریف کی ضمانت 50 ،50 لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض منظر کر لی گئی ہے، جس کے بعد عدالت میں موجود ن لیگی رہنماؤں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور اپنے وکلا کے ساتھ عدالت سے روانہ ہوگئے۔

تاہم روبکار جاری نہ ہوئی کیونکہ یہ بینچ ہفتے کے دوران ہی ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا اور تحریری فیصلہ جاری نہ ہوسکا کیونکہ جسٹس اسجد جاوید گھرال نے فیصلے پر دستخط نہیں کیے جس کی تصدیق ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے بھی کی ہے۔

رجسٹرار آفس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عام طور پر یہ روایت ہے کہ جب کیس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد جج صاحبان اپنے چیمبر میں جاتے ہیں تو اسی کورٹ کا ایسوسی ایٹ (ملازم) عدالت میں آکر فیصلہ سنا دیتا ہے جو چیمبر سے اسے ججز بتاتے ہیں۔

ان کے خیال میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ بینچ میں شامل دونوں ججز کا فیصلہ سنا دیا گیا لیکن فیصلے پر دستخط نہیں ہوئے، عام طور پر ججز فیصلہ سنانے کے بعد تفصیلی یا مختصر آرڈر لکھوا کر دستخط کر کے جاری کر دیتے ہیں اور پھر ضمانت کے کیسوں میں روبکار جاری ہوتی ہے۔

جسٹس اسجد اقبال گھرال کو بہاولپور بینچ جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ملتان بینچ بھیج دیا گیا ہے جبکہ احتساب کے کیسوں کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے جو جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل ہے۔

عہدے دار کے مطابق اب شہباز شریف کی درخواست ضمانت کا معاملہ ریفری جج یا نئے بینچ کے پاس جائے گا، جس کا فیصلہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا لیکن ابھی تک ضمانت کے فیصلے سے متعلق کوئی تحریری حکم نامہ جاری نہیں ہوا، اس کیس میں اب دونوں جج الگ الگ فیصلہ تحریر کر سکتے ہیں۔

قانونی طور پر اب شہباز شریف رہا ہوں گے یا دوبارہ کیس کی سماعت ہوگی؟

شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ معمول کے مطابق شہباز شریف کی ضمانت کا تحریری فیصلہ لینے عدالت گئے تو معلوم ہوا کہ ججز کے فیصلے پر اختلاف کے باعث دستخط نہیں ہوئے اس لیے فیصلے کی نقل نہیں مل سکتی لہٰذا اب روبکار بھی جاری نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد دو ججز صاحبان میں فیصلے پر اختلاف سامنے آگیا۔

عدالت میں سماعت کے وقت موجود سینیئر کورٹ رپورٹر محمد اشفاق نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ نے شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں درخواست ضمانت پر طویل سماعت کی۔

13 اپریل کو شہباز شریف کے وکلا نے دلائل مکمل کیے اور 14اپریل کو نیب پراسکیوٹر نے اپنے دلائل دیے۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور تقریباً 20 منٹ کے بعد کورٹ ایسوسی ایٹ کمرہ عدالت میں آئے اور انہوں نے اونچی آواز میں کہا کہ شہباز شریف کی ضمانت سے متعلق درخواست منظور کرلی گئی ہے اور 50،50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائے جائیں۔

محمد اشفاق نے بتایا کہ یہ سنتے ہی کمرہ عدالت میں موجود رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب سمیت دیگر لیگی رہنما ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے لگے اور اس فیصلے کے بعد ان رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خوشی کا اظہار بھی کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ معمول کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر نے ضمانت منظوری کا مختصر فیصلہ لکھ کر جسٹس اسجد جاوید گھرال کے پاس بھجوایا تو انہوں نے دستخط نہیں کیے، جس کے بعد 15 اپریل کو جسٹس اسجد جاوید گھرال ہائی کورٹ میں آئے اور بطور سنگل بینچ کیسز کی سماعت کی لیکن ڈویژن بینچ میں نہیں گئے جس کی وجہ سے کاز لسٹ منسوخ کر دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس اسجد جاوید گھرال نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان کو آگاہ کردیا جس کے بعد اب بینچ کے سربراہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال اپنا اپنا الگ الگ فیصلہ لکھ کر چیف جسٹس کو بھیجیں گے۔

محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ اس کے بعد چیف جسٹس شہباز شریف ضمانت کیس کو ریفری جج کے پاس ارسال کریں گے یا نئے بینچ کو معاملہ بھجوائیں گے اور وہ شہباز شریف کی ضمانت کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان