ٹی ایل پی سے مذاکرات شروع، 11 یرغمال پولیس اہلکار رہا ہوگئے ہیں: وزیر داخلہ

دیر رات جاری ایک ویڈیو پیغام میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں جس کے بعد یرغمال بنائے گئے 11 پولیس اہلکار رہا کر دیے گئے ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک ویڈیو بیان میں اعلان کیا ہے کہ حکومت کے کالعدم قرار دی جانے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔

تقریباً ڈیڑھ منٹ کے اس بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کا پہلا راؤنڈ گذشتہ رات پنجاب حکومت کے ذریعے منعقد ہوا جس کے بعد یرغمال 11 پولیس اہلکار رہا کر دیے گئے ہیں اور مظاہرین واپس لاہور میں اپنے مرکز میں چلے گئے ہیں، جبکہ سکیورٹی فورسز بھی پیچھے بلا لی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ پیر کی صبح سحری کے بعد شروع ہوگا اور انہیں امید ہے کسی مثبت نتیجے پر پہنچے گا۔ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کہاں ہو رہے ہیں اور حکومت پنجاب کی جانب سے یا تحریک کی طرف سے کون کر رہا ہے۔

اس سے قبل سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمٰن نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے گرفتار کیے گئے کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرنے اور ان کے خلاف درج کیے گئے مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے آج ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔

یہ اعلان کراچی کے دارالعلوم امجدیہ میں ان کی زیر صدارت موجودہ صورت حال پر تنظیمات اہلسنت کے اجلاس کے بعد ہوا۔

مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ وہ 15 اپریل کی پریس کانفرنس میں حکومت اور بااختیار اداروں کو مشورہ دے چکے تھے کہ کالعدم تحریک لبیک کی قیادت کو جمع کیا جائے تاکہ آپس میں مشاورت کر سکیں اور مسئلے کے پُرامن حل کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جاسکے ’لیکن اہلِ اقتدار نے اس پر کان نہ دھرے اور ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔‘

حزب اختلاف کی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ہڑتال کی کال میں مفتی منیب الرحمٰن سے 'مکمل تعاون' کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے علاوہ جماعت اسلامی نے بھی مفتی منیب الرحمٰن کی جانب سے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال کی حمایت کر دی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے ایک مقامی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ کالعدم تحریک لبیک کے ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے تمام سکیورٹی اہلکاروں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں تحریک لبیک کے ترجمان شفیق امینی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت غلط بیانی کر رہی ہے، ہم نے انہیں دوپہر کو خود چھوڑ دیا تھا۔ اس بات کی تصدیق جب انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس سے کرنا چاہی تو لاہور پولیس اس بات کی تصدیق یا تردید کرنے سے قاصر رہی۔

دوسری جانب لوکل میڈیا پر یہ بھی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ کالعدم تحریک کے سربراہ سعد حسین رضوی نے احتجاج ختم کرنے کا حکم ایک خط کے ذریعے جاری کیا ہے۔ اس حوالے سے کالعدم تحریک لبیک کے ترجمان شفیق امینی نے  اپنا ایک ویڈیو بیان بھی ٹوئٹر پر جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ میڈیا چینل پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ ہمارے سربراہ سعد حسین رضوی نے حکم دیا ہے کہ مسجد رحمت العالمین سے اٹھ جائیں اور احتجاج ختم کریں۔ یہ جھوٹ ہے۔ ہمارے مذاکرات جاری ہیں اور جب تک ہمارے مذاکرات جاری ہیں ہم مرکز میں ہی موجود رہیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی اعلان ہو گا شوریٰ کرے گی عوام ادھر ادھر کی خبروں پر دھیان نہ دیں، اس وقت تحریک کے مرکز رحمت اللعالمین مسجد کے اندر تحریک اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں زخمی ہونے والے زیر علاج ہیں انہیں مرکز سے باہر علاج کی غرض سے جانے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ چوک یتیم خانہ کی طرف جانے والی ٹریفک بند ہے نیز اس علاقے اور گرد و نواح میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی معطل ہے۔

انسپکٹر جنرل پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی سے ان کے چھوٹے بھائی انس رضوی نے ہفتے کو جیل میں ان سے ملاقات کی اور انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ شوریٰ کو احتجاج ختم کرنے کا حکم کہہ دیں لیکن شوری نے سعد رضوی کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھا۔

پولیس نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا نہ پولیس نے مسجد یا مدرسے پر کوئی حملہ کیا۔

پولیس کی جانب سے جو بھی ایکشن لیا گیا وہ ذاتی تحفظ اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے لیا گیا۔

تحریک اور حکام کی جانب سے نقصانات سے متعلق متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں تاہم ریسکیو ذرائع کے مطابق اب تک 69 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات پر یقین رکھتی ہے لیکن بلیک میل نہیں ہوں گے۔

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے آج لاہور میں ہنگامی پریس میں کہا ہے کہ تمام اختلافات کے باوجود ناموس رسالت پر ہم سب متحد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مغرب میں نبی کریم کے خلاف گستاخیاں اور کارٹون مقابلے کروائے گئے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے احساسات مجروح ہوئے۔

’اس سب کے بعد پاکستان  میں احتجاج ہوا اور حکومت نے ایک سیاسی جماعت سے بیس اپریل تک فرانس کے سفیر کو باہر نکالنے کے لیے معاہدہ کیا لیکن قوم انتظار کرتی رہی کہ حکومت معاہدے پر عمل کرتی تاہم بیس اپریل سے قبل ایسے اقدام کئے جس سے فرانس کی حوصلہ افزائی ہوئی۔‘

انہوں نے کہا کہ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا اور اس کے ردعمل میں احتجاج ہوا، تاہم پہلے تو پولیس خاموش تماشائی بنی رہی لیکن جب مظاہرین نے بعض جگہوں پر قانون ہاتھ میں لیا اور پولیس پر حملے بھی کیے تو پولیس نے ردعمل میں وہ اقدامات کیے جو حکومت کے لیے مناسب نہیں تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ چوک یتیم خانہ میں حکومت نے جو تشدد اور سیدھی گولیاں چلائیں اسے ہلاکوں خان اور چنگیز خان دور کی یاد تازہ ہو گئی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے لال مسجد کے واقعے کو دہرایا ہے جب کہ پولیس کی جانب سے ظلم پر لوگوں میں اشتعال پھیلنا فطری عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلا جواز طاقت کا استعمال بند کیا جائے اور حکومت نے جو معاہدہ کیا اس پر پاسداری بھی کرے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت فرانسیسی سفیر کو باہر نکالے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ مسلمان ایسے شخص کو برداشت نہ کرتے۔‘

ملتان روڈ پر کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے دھرنا دینے والے کارکنان اور پولیس کے درمیان اتوار کی صبح جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔ تحریک لبیک کے کارکنان نے نواں کوٹ کے ڈی ایس پی محمد عمر فاروق کو ایک درجن دیگر اہلکاروں کے ساتھ یرغمال بنا لیا۔

ان کا زخمی حالت میں ایک ویڈیو بیان بھی تحریک لبیک کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ تھانہ نواں کوٹ کی حدود میں مشتعل افراد نے حملہ کیا اور پھر تحریک کے ہی رکن قاری فاروق نے مشتعل افراد کو روکا۔ ان کا کہنا تھا جب آپس میں معاہدہ ہوا ہے تو معاہدے کی پاسداری ہونی چاہیے۔

لاہور پولیس کے ایک ترجمان عارف رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تحریک لبیک کے اہلکاروں نے اتوار کی صبح تھانہ نواں کوٹ پر حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی، پانچ پولیس اہلکاروں اور دو رینجرز کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا جس کے بعد ہم نے آپریشن شروع کیا۔ تاہم پنجاب وزیر اعلی کی مشیر برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے 12 اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے کا اعلان کیا ہے۔

پولیس ترجمان عارف رانا کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک کے لوگوں نے وہاں آئل ٹینکر کھڑا کر رکھا ہے جس میں کم از کم 50 ہزار لیٹر پٹرول ہے اور اسی پٹرول سے بم بنا کر وہ پولیس والوں پر چلا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک پولیس کے 11 اہلکار زخمی ہو چکے ہیں جنہیں لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ آپریشن تب تک جاری رہے گا جب تک ہمارے اہلکار بازیاب نہیں ہو جاتے۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان شفیق امینی نے بھی ایک ویڈٰو بیان جاری کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اتوار کی صبح پولیس نے تحریک کے لاہور مرکز پر حملہ کیا جس میں کثیر تعداد میں کارکنان زخمی ہوئے۔

تحریک لبیک پاکستان کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے جھڑپوں پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک کے لوگوں کو پولیس والوں کو یرغمال نہیں بنانا چاہیے تھا۔ ’حکومت خاموش بیٹھی ہے جبکہ یہ مسئلہ ٹیبل ٹاک سے حل کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے حکومت کو سامنے آنا چاہیے۔ تحریک کی سنجیدہ لیڈرشپ سامنے نہیں آ رہی۔ پیر افضل قادری جیسے سینئیر رہنماؤں کو سامنے لا کر صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے وسطی ایشا اور بین المذاہب، مولانا حافظ طاہر اشرفی نے اس ساری صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'تحریک لبیک اب ایک کالعدم جماعت ہے۔ انہوں نے پولیس اور رینجر اہلکاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں یہ ایکشن ہوا۔ جہاں تک اسلام اور ناموس رسالت کا تعلق ہے، پاکستان کا موقف وہی ہے جو پوری امت مسلمہ کا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ یہ پر امن ہو کر ہمارے ساتھ مل کر بین القوامی سطح پر ناموس رسالت کے مسئلے کو اجاگر کریں نہ کے تشدد کا راستہ اپنائیں، لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچائیں یا سکیورٹی فورسز کو یرغمال بنائیں۔‘

 ان کایہ بھی کہنا تھا کہ وزیر داخلہ ان سے پہلے مذاکرات کر رہے تھے لیکن انہوں نے بات نہیں سنی۔ ’جب تک یہ پرامن نہیں ہوتے تب تک ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ پر تشدد راستہ چھوڑ کر امن کی زندگی کی طرف لوٹیں اور اگر یہ ریاست کی عمل داری کو چیلنج کریں گے تو ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا پڑیں گے جو کہ وہ اٹھائے گی۔'

دوسری جانب صبح سے جاری جھڑپوں میں ریسکیو کے حوالے سے بھی تحریک کے کچھ کارکنان کے ویڈیو بیان سامنے آئے کہ جھڑپوں کے دوران حکومت نے ریسکیو 1122 کو جائے وقوعہ پر مدد مہیا کرنے سے منع کیا ہے اور اسی لیے صرف ایدھی کی ایمبولینسیں یہاں کام کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'ریسکیو کا یہ کام ہے کہ تمام زخمیوں کو بلاامتیاز مدد مہیا کرے۔ لیکن ہم یہ سروسز تب مہیا کر سکتے ہیں جب آگے ہمارے لیے حفاظت اور راستہ کلیئر ہو۔ وہاں دونوں طرف کنٹینر لگے ہوں تو ایمبولینس اندر کیسے جائے گی؟'

دوسری جانب ریسکیو کے ہی ایک ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق تحریک لبیک اور پولیس کی جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد 69 ہے۔ 46 کو معمولی زخموں کی طبی مدد دے کر گھر بھیج دیا گیا جبکہ 23 کو ہسپتال منتقل کیاگیا جن میں  11 پولیس اہلکار اور 12 شہری شامل ہیں۔

اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ ریسکیو 1122 نے اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی تھی لیکن تحریک لبیک کے کارکنان ریسکیو 1122 پر اعتماد نہیں کر رہے۔ انہیں ڈر ہے کہ ہم انہیں ایمبولینس میں لے جا کر اغوا کر لیں گے یا پولیس کے حوالے کر دیں گے۔

پولیس اور تحریک لبیک کے کارکنان کے درمیان جاری جھڑپوں کے بعد سے چوک یتیم خانہ اور ارد گرد کے علاقے میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے جبکہ ٹریفک کا گزر بھی اس علاقے سے بند کر کے ڈائیورشن لگا دی گئی ہے۔

لاہور پولیس کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکن اورنج ٹرین کی چھت پر چڑھے ہوئے ہیں جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر ہیں۔ مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے تقریریں کی جا رہی ہیں اور لوگوں کو بلایا جا رہا ہے۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ چند روز قبل شروع ہوا تھا جب پولیس نے تحریک کے سربراہ سعد حسین رضوی کو جو تحریک کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی کے صاحبزادے ہیں، گرفتار کر لیا تھا۔ گرفتاری کے بعد تحریک کے مشتعل ارکان سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے پاکستان بھر میں بڑی شاہراؤں کو بند کر دیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ پولیس والوں کو مختلف مقامات پر تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔

وزیر اعلی پنجاب کی مشیر برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹر پر دو ٹویٹس میں بتایا کہ اتوار کی صبح پٹرول بموں اور تیزاب کی بوتلوں سے لیس متشدد جتھے نواں کوٹ پولیس سٹیشن پر حملہ آور ہوئے۔ جہاں رینجرز اور پولیس اہلکار محبوس ہوگئے اور تقریباً چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ متشدد جتھے ڈی ایس پی نواں کوٹ سمیت ایک درجن پولیس اہلکاروں کو اسلحے کے زور پر اغوا کرکے اپنے مرکز لے گئے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پولیس کی طرف سے کوئی آپریشن پلان یا شروع نہیں کیا گیا اور جوابی کارروائی صرف دفاع اور مغوی پولیس اہلکاروں کو بچانے کی لیے کی گئی۔ اس سے پہلے ان جتھوں کے ہاتھوں چھ پولیس اہلکار ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کسی صورت میں اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اس لیے حکومت کے پاس اپنی رٹ قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ دو تین ماہ تک مذاکرات کی کافی بات کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ کالعدم تنظیم نے 192 مقامات بلاک کیے تھے، ان میں سے 191 کلیئر ہوگئے ہیں محض ایک جگہ مسئلہ ہے اور حالات کشیدہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان