کشمیر میں پہلا روزہ

ماہ صیام کا اب بھی انتظار ہوتا ہے، روزہ بھی رکھا جاتا ہے، نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں مگر کچھ ہے کہ جس کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

03 اکتوبر 2007 کو لی گئی اس تصویر میں کشمیری مسلمان محمد رمضان سری نگر کی ایک گلی میں گھنٹی بجاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ رمضان ان افراد میں سے ایک ہے جو رمضان المبارک کے دوران لوگوں کو جگانے کے لیے کشمیر کی تنگ گلیوں میں گھومتے ہیں (اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


یہ ان دنوں کی بات ہے جب سن 1965 میں آپریشن جبرالٹر کے بعد ہمارے گھروں کے باہر فوج کی پہرے داری بڑھ گئی تھی۔ جب میں سڑک پر فوجی ٹرک کی دہشت سے بابا کے پھرن (کشمیری پوشاک) کے اندر گھس کر چھپ جاتی تھی۔ جب شام کو عشا کے بعد محلے کے بزرگ بابا کے ساتھ سیاسی سرگوشیوں میں دیر رات تک مصروف رہا کرتے تھے۔

بابا پر اس وقت سے نظریں مرکوز تھیں جب انہوں نے بڑی محنت کے بعد 13 جولائی 1931 کے واقعے پر کتاب لکھ کر وزیر اعظم بخشی غلام محمد کو پیش کی تھی۔ انہوں نے نہ صرف اس کتاب کو غائب کر دیا بلکہ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے ان کو برخاست بھی کر دیا اور وہ اس وقت سے ریڈ لسٹ میں شامل کر دیئے گئے تھے۔

گوکہ گھر کے باہر ہمیشہ خوف محسوس ہوتا مگر رمضان کے آتے ہی مساجد میں چاروں پہر کی رونق سے غائب بھی ہو جاتا تھا۔ ہمارے محلے میں رمضان سے قبل ہفتوں صفائی کی ایک وسیع مہم شروع کی جاتی تھی اور ایک دوسرے کی معاونت و محبت سے مکان، گلی، دل اور ذہن صاف کیے جاتے تھے۔

ان دنوں چند بزرگ ہر گھر میں قرآن شریف تقسیم کیا کرتے اور بچوں کی دینی تعلیم کے لیے مساجد میں خصوصی درس و تدریس کے انتظام کا اعلان بھی کرتے تھے۔

گھریلو درس و تدریس نے مذہب کی وسعتوں سے متعارف کرایا اور پھر مختلف ملکوں میں جا کر اسلام کی تاریخ پڑھنے کا شوق جگایا۔ اب تو دل گھبراتا ہے جب اسلام کو داڑھی بڑھانے یا برقعہ پہنے تک محدود ہوتے دیکھتی ہوں۔

میرے گھر میں رمضان کے دوران عبادات کے علاوہ ضیافتوں کا خاصا انتظام ہوا کرتا تھا۔ گھر کی رونق، مساجد کی چمک اور بچوں میں خوشی دیکھ کر میں نے بھی چھ سال کی عمر میں پہلا روزہ رکھنے کا اعلان کیا مگر اندیشہ یہ تھا کہ گھر والے مجھے سحری کے لیے نہیں جگائیں گے۔

میں نیند میں مست تھی کہ باہر سے ڈھول بجنے کی آواز آئی، کوئی بندہ آوازیں دے رہا تھا کہ ’سحری کا وقت ہوگیا ہے بیدار ہو جاؤ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غفلت کی نیند سے چھٹکارہ حاصل کرو۔‘

میرے والد نےڈول والےشخص کا تعارف کرایا، ’یہ ہمارا سحر خان ہے جو ہمیں سحری کے لیے روز جگانے آئے گا۔‘

سحری کے لیے سب جاگ گئے۔ سبھی سبزی، گوشت، چاول، چائے، بسکٹ اور پانی ایک ساتھ اور جلدی سے نوش کرنے کی دوڑ میں لگ گئے جیسے ہم سب کھانے کے کسی میراتھن میں حصہ لے رہے تھے۔

ایک ساتھ اتنا سب کچھ کھانا میرے لیے مشکل ہوگیا تو میں نے والد صاحب سے انتہائی معصومانہ طریقے سے پوچھا ’کیا میں تھوڑا کھانا دوپہر کے لیے بچا سکتی ہوں؟‘

گھر کے سارے افراد ہنس پڑے، والد صاحب نے کہا کہ ’دوپہر تک نہیں بلکہ افطار تک رکھنا پڑے گا۔‘

’اگر دوپہر میں بھوک لگی تو؟‘

’پھر دوپہر میں آپ کے لیے دوسری سحری ہو سکتی ہے۔ آپ تاپہ سحر یعنی دھوپ والی سحری کھا سکتی ہو۔‘

والد نے جس انداز میں بات کی اس پر مجھے کچھ شک ہوا اور فورا پوچھا ’کیا آپ بھی دوپہر کی سحری کھائیں گے؟‘ والد صاحب جواب دینے کی سوچ ہی رہے تھے کہ میری بڑی بہن نے کہا، ’جس جس کو بھوک ستائے گی وہ تاپہ سحر کھا سکتا ہے۔‘

فجر کی اذان شروع کیا ہوئی کہ کھانے پر فورا روگ لگ گئی۔ سبھی نماز والے کمرے کی جانب رخ کرنے لگے۔

نمازیں اور قرآن پڑھنے کے دوران آسمان پر پو پھوٹنے کی لکیریں، پرندوں کی چہچہاہٹ، کھڑکیوں کے پٹوں پر کبوتروں کا بیٹھ کر غٹر غُوں کرنا اور آنکھوں پر نیند کا بوجھل پن کتنا خوبصورت منظر تھا۔

دوپہر میں بھوک کی شدت محسوس ہوئی تو توجہ ہٹانے کی تمام کوششیں بےکار ثابت ہوگئیں۔ بابا مجھے غور سے دیکھ رہے تھے اور انتظار میں تھے کہ میں روزہ توڑنے کی اجازت طلب کروں گی۔

میں نے بڑی بہن کو اعتماد میں لے کر اپنی بھوک کا اعتراف تو کیا مگر شرط رکھی کہ وہ بھی میرے ساتھ دوپہر کا کھانا کھائیں۔ وہ کہنے لگی کہ ’مجھے بھوک نہیں لگی ہے، جب مجھے بھی بھوک ستائے گی تو کھانا کھاؤں گی۔‘

وہ میرے لیے کھانا لائی اور کہا کہ یہ آپ کا تاپہ سحر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف کھانے کو دیکھ کر میری نظریں للچا رہی تھیں مگر دوسری طرف خیال آ رہا تھا کہ گھر کے سارے افراد افطار تک بھوک پر قابو پا لیں گےتو میں نے بھی ٹھان لی کہ میں روزہ جاری رکھوں گی۔

میں نے پہلا روزہ مکمل کیا اور افطار کے وقت میری خاصی پذیرائی ہو رہی تھی۔ بابا نے پیشانی کو چوما اور بہنوں نے گلے لگا کر مبارک باد دی۔ کھانے کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، شام کا دھندلا پن، ہمارے صحن کے چاروں طرف بڑے بڑے درختوں پر پرندوں کا اپنے گھونسلوں میں واپس آنا، صحن کی سبز گھاس پر بچھی دستر خوان، اس پر سجے مشروبات، کھجور، میوے، پراٹھے، سماوار میں گرم چائے، سالن اور مسجد سے اذان کا انتظار۔ یہ خوبصورت پل ایسے ہیں کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے بس اسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

میں نے گذشتہ پچاس برسوں میں کتنے رمضان دیکھے، کتنے روزے رکھے اور نئی ٹیکنالوجی کی بدولت روزوں کو کتنا آسان بھی بنتا دیکھا مگر اس پہلے روزے کے وہ پل شاید زندگی کا واحد حاصل ہے۔

اب تو سحر خان کی جگہ ڈیجیٹل کلاک نے لی ہے، شربت کو سافٹ ڈرنک نے بدل دیا ہے، دسترخوان ڈائنگ ٹیبل بن گئی ہے اور پھر گھر کے لوگ ہی غائب نہیں ہوئے بلکہ دلوں میں جگہ بھی تنگ پڑگئی ہے۔

ماہ صیام کا اب بھی انتظار ہوتا ہے، روزہ بھی رکھا جاتا ہے، نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں مگر کچھ ہے کہ جس کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔

بابا کہتے تھے کہ ’رمضان محض فاقہ رکھنے کی رسم نہیں ہے ایک ضابطہ حیات کا وہ ایک حصہ جو ہمیں نفس، انا، جہالت اور تشدد پر قابو پانے کا درس دیتا ہے۔‘

لیکن جب افطار کے وقت بیچ راہ رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ایمبولینسیں روک کر بعض لوگ تشدد کرتے دیکھے جاتے ہیں اور پھر وہ اسلام کی پاسداری کا اعلان بھی کرتے ہیں تواقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:

الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ