میں اور اہلیہ ایف بی آر رپورٹ کو اہمیت نہیں دیتے: جسٹس فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے گئے تین سوالات کے تحریری جوابات عدالت میں جمع کروا دیئے۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا: ’میں اور میری اہلیہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ کو بے وقعت سمجھتے ہیں۔ عدالت کی جانب سے تینوں سوالات پوچھے ہی نہیں جانے چاہیے تھے۔‘(تصویر: بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے گئے تین سوالات کے تحریری جوابات عدالت میں جمع کروا دیئے ہیں، جن میں جسٹس عیسیٰ نے کہا ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ کو اہمیت نہیں دیتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے بدھ کو صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔

گذشتہ سماعت پر جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسی نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جبکہ قاضی فائز عیسیٰ نے آج دلائل دیے اور عدالت کے پوچھے گئے سوالات پر آج تحریری جواب بھی جمع کروا دیا۔

دس صفحات پر مشتمل جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ ’حیران کن طور پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کچھ سوالات پوچھے ہیں۔ ان سوالات کی بنیاد بظاہر چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ معلوم ہوتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں اور میری اہلیہ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ کو بے وقعت سمجھتے ہیں۔ عدالت کی جانب سے تینوں سوالات پوچھے ہی نہیں جانے چاہیے تھے۔‘

جواب میں مزید کہا گیا کہ ’اگر میں ان سوالات کا دیتا ہوں تو یہ ایف بی آر رپورٹ کو تسلیم کرنے اور اپنےکیس کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ایف بی آر رپورٹ پر بات کرنا نامناسب ہے۔ اگر میں نے سوالات کے جوابات دیئے تو اس سے میرے خلاف ایک اور ریفرنس بن سکتا ہے۔‘

جسٹس عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’ان سوالات کے جوابات کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو ایف بی آر رپورٹ کی روشنی میں میرے خلاف کارروائی کا اختیار مل جائے گا۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے جسٹس عمر عطا بندیال سے ملاقات کرکے کبھی اپنے کیس پر بات نہیں کی۔ میں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ میرا مقدمہ سننے والے کسی جج کو میرے ساتھ نہ بٹھایا جائے۔‘

انہوں نے اپنے جواب میں لکھا کہ ’جسٹس عمر عطا بندیال نے مجھے اپنے فارم ہاؤس کا شہد بطور تحفہ بھجوایا لیکن میں نے شہد کی بوتل شکریہ کے ساتھ واپس کردی۔‘

 

آج سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل شروع کیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’بار کے وکیل تحریری دلائل جمع کروا چکے ہیں، پہلے وفاق کو اپنے دلائل دینے دیں تاکہ کیس ختم ہو کیونکہ بار بار کہا جاتا ہے کہ میری وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔‘

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے جواباً کہا کہ ’میں اتنا سمجھدار نہیں کہ تحریری دلائل پر اکتفا کر سکوں۔‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’معاملہ ایف بی آر کو نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ ایف بی آر کو معاملہ بھیجنا غلط فیصلہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صدارتی ریفرنس کالعدم ہوگیا۔ جب ریفرنس کالعدم ہوا تو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی معاملہ ختم ہوگیا۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’بالکل ایسا ہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی معاملہ نہیں اور چونکہ ریفرنس کالعدم ہے تو اس پر مزید کارروائی نہیں ہوئی۔‘

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا جائے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرتے ہوئے مزید کارروائی کرسکتی ہے۔‘

اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ ’معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے کہ وہ کیسے کام کرتی ہے۔ آیا سامنے لائے گئے مواد پر فیصلہ کرتی ہے یا ازخود نوٹس کا استعمال کرتی ہے۔ میرا موقف ہے کہ جب ریفرنس کالعدم ہوگیا تو پھر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ ججز کے خاندان کے اثاثے آرٹیکل 209 کے دائرے سے باہر ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بچے اور خاندان نہ سپریم جوڈیشل کونسل اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فریق تھے۔ ان کو کسی بھی کیس میں اور کسی بھی پلیٹ فارم پر فریق نہیں بنایا گیا۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جج کے ضابطہ اخلاق ان کے بچوں اور خاندان نہیں آتا۔‘ اس پر حامد خان نے کہا کہ ’جی ہاں ایسا ہی ہے۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے۔ جج کو اپنے خاندان اور اولاد سے متعلق بھی بہت محتاط ہونا چاہیے۔ آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ نہایت اہم ہے۔‘

اس موقع پر حامد خان نے کہا کہ ’لیکن یہاں بچے خود کفیل ہیں۔‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بالکل درست ہے۔‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کل یہاں تو قاضی کا خاندان فریق نہ تھا تو پھر کیسے کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان کو آرٹیکل 209 کے تحت فریق نہیں بنایا جاسکتا۔ ججز کا ضابطہ اخلاق بھی اس سے متعلق بات نہیں کرتا۔‘ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’اگر پلیڈنگ کنکشن موجود ہو تو پھر؟‘ جس پر حامد خان نے کہا کہ ’پھر متعلقہ فریق نے اس کا جواب دینا ہوتا ہے۔‘

حامد خان نے مزید کہا کہ ’آئین پاکستان ججز کی مدت ملازمت کا محافظ ہے، آئین خود مختار عدلیہ کا دفاع کرتا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’جج مبہم الزام پر وضاحت کا پابند نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کے پاس ایف بی آر کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل مستقل قائم رہنے والا ادارہ نہیں ہے، کوئی ریفرنس آئے تو ہی کونسل تشکیل پاتی ہے۔ سوموٹو لینا سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہوتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کو ازخود نوٹس کی ہدایت نہیں کی جا سکتی،کونسل کے پاس موجود مواد سپریم کورٹ کے حکم پر جمع ہوا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 184(3) کی کارروائی میں سب عدالتی دائرہ اختیار پر منحصر ہے۔‘

حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سندھ بار کونسل اور پی ایف یو جے کے وکیل رشید اے رضوی نے حامد خان کے دلائل پر اکتفا کرلیا۔ دوسری جانب وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت نے انکم ٹیکس حکام کے لیے کارروائی کی ٹائم لائن دی، عدالت کی دی گی ڈیڈ لائنز غیرقانونی ہیں، قانون میں ٹیکس حکام کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گی، نظرثانی اپیل کا دائرہ اختیار سماعت محدود ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اعتراض کو طریقہ کار میں بے قاعدگی قرار دیا جاسکتا ہے، عدالتی کارروائی میں طریقہ کار کی بے قاعدگی کو بنیاد بنا کر فیصلے پر نظرثانی نہیں کی جاسکتی۔‘

’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ نہیں دیا بلکہ سپریم کورٹ نے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجا تھا۔‘

عامر رحمٰن نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کو تحقیقات کے لیے معاملہ متعلقہ فورم پر بھیجنے کا اختیار حاصل ہے، ہمارےسامنے پاناما کیس کی مثال موجود ہے۔ درخواست گزار جج نے مرکزی کیس میں اپنی بیوی اور بچوں کو عدالتی کارروائی سے دور رکھا لیکن ان کی اہلیہ خود عدالتی کارروائی کا حصہ بنیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کو سماعت کا موقع نہیں ملا۔ سرینا عیسیٰ نے عدالت میں بیان دیا اور دستاویزات پیش کیں۔ نظرثانی درخواستوں میں صرف فیصلے میں غلطی پر بات ہو سکتی ہے۔ نظر ثانی ایسی غلطی پر ہوتی ہے جو برقرار رہنے سے ناانصافی ہو۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’سرینا عیسیٰ کو فریق نہ ہوتے ہوئے بھی سنا گیا، شفاف ٹرائل کے حق پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے، عدالت نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کیس نہ بھی بھجواتی تو ایف بی آر نوٹس لے سکتا تھا۔ سرینا عیسیٰ کو باضابطہ سماعت کا مکمل موقع فراہم کیا گیا اور ایف بی آر کے مطابق سرینا عیسٰی ذرائع آمدن کی وضاحت نہیں کرسکیں۔‘

ان دلائل کو سننے کے بعد عدالت مزید کارروائی کے لیے سماعت جمعرات (22 اپریل) تک کے لیے ملتوی کردی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان