ڈاکٹروں کو نسخے پر دوا کا فارمولا لکھنے کی ہدایت: فائدہ کس کو؟

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان نے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ڈاکٹر مریضوں کو دوائیوں کے برانڈ نہیں فارمولا لکھ کر دیں۔ اس فیصلے سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہو گا؟

(اے ایف پی فائل فوٹو)

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے تمام صوبوں کو ایک نوٹفیکیشن جاری کیا ہے کہ نجی و سرکاری سطح پر کام کرنے والے تمام ڈاکٹر مریض کو دیے جانے والے نسخے پر ادویات کا جنیرک نام لکھیں گے نہ کے کسی خاص کمپنی کی دوا لکھی جائے۔

ہر دوا کے دو نام ہوتے ہیں۔ ایک اس کا اصل یا کیمیکل نام (اسی کو فارمولا، جنیرک نیم یا سالٹ بھی کہتے ہیں) اور دوسرا کمپنی کا دیا ہوا برینڈ نیم۔ ایک ہی دوا کے درجنوں برینڈ نیم ہو سکتے ہیں۔

اس کی ایک مثال پیراسیٹامول نامی ایک دوا ہے جو پاکستان میں ’پیناڈول،‘ ’کال پول‘ اور اسی قسم کے ایک سو سے اوپر ناموں سے دستیاب ہے، جن کی الگ الگ قیمتیں ہیں۔ اب یہ ڈاکٹر کی صوابدید ہے کہ وہ مریض کو کون سی کمپنی کی دوا لکھ کر دیتا ہے۔

ڈریپ کے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر اختر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیر اعظم پورٹل پر کچھ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں جبکہ اسی فارمولے کی سستی ادویات بھی موجود ہوتی ہیں جس کے تحت ڈریپ نے تمام صوبائی حکومتوں کے محکمہ صحت کو یہ نوٹفیکیشن جاری کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس نوٹفیکیشن کے مطابق محکمہ صحت کوشش کریں کہ ڈاکٹر جنیرک نام کے ساتھ ادویات لکھ کر دیں۔

اس نوٹفیکیشن میں بھی لکھا ہے کہ پرائم منسٹر پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ پر متعدد ایسی شکایات موصول ہوئیں جس میں شہریوں نے مسئلہ اٹھایا کہ سرکاری و نجی سطح پر ڈاکٹر مہنگی ادویات لکھتے ہیں جو نہ صرف ملکی معیشت بلکہ مریض پر بھی مالی دباؤ ڈالتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ڈاکٹروں کے اخلاقی تقاضوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

نوٹفیکیشن میں محکمہ صحت سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جس کے تحت ڈاکٹر مریض کو جنیرک نام کے ساتھ ادویات لکھ کر دیں نہ کہ اپنے کسی ذاتی مفاد کی بنیاد پر برینڈ نیم والی ادویات لکھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سال فروری میں آسٹریلیا میں صحت کے حکام نے بھی ڈاکٹروں کو اسی قسم کی ہدایت کی ہے کہ وہ دوا کا جنیرک نام لکھ کر دیں، برینڈ نیم نہ لکھیں۔

جنیرک نام سے ادویات لکھنے کا فائدہ اور نقصان کس کو؟

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر اس پر عمل ہو جاتا ہے تو اس کا فائدہ میڈیکل سٹوروں کو ہو گا۔

’ان کا اختیار ہو گا کہ وہ جسے جو مرضی دوائی دے دیں۔ جنیرک برانڈ میں منافع مختلف ہے۔ لوکل کمپنیوں کے منافعے کا مارجن 45 سے 50 فیصد ہے جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کا مارجن 15 فیصد ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میڈیکل سٹور والوں کو زیادہ منافع لوکل ادویات بیچ کر ہو گا اس لیے وہ کوشش کریں گے کہ ساری لوکل ادویات بکیں لیکن ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات کا معیار اچھا ہے۔ بے شک ہماری کچھ لوکل کمپنیوں کی ادویات بھی بہت اچھی ہیں۔‘

 ڈاکٹر سلمان کے خیال میں نظام کو درست کرنے کا حل یہ نہیں کہ ادویات کو جنیرک پر کر دیا جائے بلکہ ڈریپ ادویات بنانے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن کو محدود کرے اور ہر دوائی کے لیے چار یا پانچ کمپنیاں رجسٹر ہوں اور ان کے درمیان معیار پر مقابلہ ہو نہ کہ 70 سے 80 کمپنیاں ایک ہی دوائی بنا رہی ہوں اور دوا کا معیار بھی مشکوک ہو۔

’اس کے علاوہ ایک سافٹ ویئر بنایا جائے جس میں ادویات کے خرید و فروخت کا ریکارڈ ہو اور ہر ڈاکٹر اور فارماسسٹ کے لائسنس نمبر کے سامنے دکھائی دے کہ وہ کس کمپنی کی کون سی ادویات لکھ رہے ہیں اور بیچ رہے ہیں۔ ہر مہینے اس کا جائزہ لیا جائے اور اس طرح ان کا آڈٹ کیا جائے۔‘

’کیا ڈریپ ڈاکٹروں کو بتائے گا کہ انہیں کیا کرنا ہے؟‘

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی نے اسے ’ایک انتہائی نااہل قسم کا فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ’اس میں ضرور ان کا کوئی اپنا ذاتی مفاد چھپا ہوا ہے کیونکہ اب سب کچھ میڈیکل سٹور والے کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ وہ چاہیں تو ایک روپے کی دوائی کو 20 روپے میں بیچیں جس کا مریض کو علم بھی نہیں ہو گا۔

’اب کیا ڈریپ والے ڈاکٹروں کو بتائیں گے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جیسی حکومت ہے ویسا ہی یہ ڈریپ کا یہ فیصلہ ہے۔ ڈریپ کب سے انسانی حقوق کی علم بردار بن گئی، کوئی قاعدہ اور قانون ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ تبھی ممکن ہو گا جب تمام ادویات کی قیمتیں ایک ہوں اور یہ کام قیمت کنٹرول کرنے والا ادارہ کرے گا۔ عموماً معالج مریض کی مالی حیثیت دیکھ کر ہی انہیں دوائی لکھ کر دیتے ہیں لیکن ایک پانچ روپے کی دوائی کی 25 روپے قیمت ہم مقرر نہیں کرتے۔

اگر مریض جنیرک نام لے کر میڈیکل سٹور پر جاتے ہیں تو مریض کو کیا معلوم کہ اس سالٹ کی کون سی دوائی سستی ہے یا مہنگی؟ مریض کو تو میڈیکل سٹور والا ہی بتائے گا کہ فلاں دوائی ہی موجود ہے وہی لیں۔‘

لاہور کے ایک مشہور میڈیکل سٹور پرموجود فارماسسٹ نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ ڈاکٹر مہنگے برانڈ کی ادویات لکھ کر دیتے ہیں اس لیے ہم سستے برانڈ کی دوائی پھر منگواتے ہیں نہیں کیونکہ اس کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔

’زیادہ تر یہ ادویات تب میڈیکل سٹور پر آتی ہیں جب زیادہ بکنے والی دوائی مارکیٹ سے غائب ہو جائے۔ تب ہم مریضوں کو بتاتے ہیں کہ اسی سالٹ کی دوائی کسی اور برانڈ میں موجود ہے اور سستی بھی ہے۔‘

’ڈاکٹر نے یہی والی دوائی کہی تھی‘

’ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب دوائی میسر نہ ہو اور ہم اسی سالٹ کی دوسری کمپنی کی دوائی مریض کو بتاتے ہیں تو پڑھے لکھے مریض تو بات سمجھ جاتے ہیں یا دوائی کے اندر موجود پمفلٹ پڑھ لیتے ہیں لیکن جو مریض زیادہ سمجھ دار نہیں ہوتے، وہ بے یقینی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔

’وہ دوا لینے کی بجائے کہتے ہیں کہ نہیں ڈاکٹر نے یہی والی دوائی کہی تھی اس لیے یہی لینی ہے۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ دونوں ادویات کا سالٹ اور فارمولا ایک ہے، بس نام اور کمپنیاں فرق ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ مہنگی دوائی کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔‘

بلڈ پریشر کی ایک دوائی جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے وہ 460 روپے کی ہے اور لوکل اسی فارمولے کی دوائی 49 روپے کی ہے۔

 

ڈرگ لائرز فورم کے صدراور فارماسسٹ نور مہر نے بتایا کہ ڈرگ ایکٹ 1976 کے سیکشن 7 شق 8 میں کہا گیا ہے کہ ایک فعال جزو پر مشتمل ادویات عام طور پر ان کے جنیرک ناموں کے ذریعے رجسٹرڈ ہوں گی جبکہ وہ ادویات جو ایک سے زیادہ فعال جزو کا مرکب ہوں وہ برینڈ ناموں سے رجسٹرڈ ہوں گی۔

’دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈاکٹر اپنے ذاتی مفادات کے لیے قانون شکنی بھی کرتے ہیں اور ایک ہی فعال جزو پر مشتمل دوائی کو اس کے جنیرک نام کی بجائے اس کے برانڈ نیم کے ساتھ لکھ دیتے ہیں جو ڈرگ ریگولیٹری قانون کی خلاف ورزی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے خیال میں ڈریپ کی اس پالیسی کا فائدہ مریض کو ہو گا: ’دوائی کا فارمولا ایک ہوتا ہے اور اثر بھی ایک ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی فارمولے کی مختلف قیمتیں ہیں۔ ایک دوائی کی قیمت ہزار روپے بھی ہے اور سو روپے بھی ہے۔

بلڈ پریشر کی ایک دوائی جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے وہ 460 روپے کی ہے اور لوکل اسی فارمولے کی دوائی 49 روپے کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ فارمولا ایک ہے تو قیمت بھی ایک ہو لیکن یہاں جتنا بڑا برانڈ ہے اسے اتنی زیادہ قیمت کی اجازت دی ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’اب مسئلہ یہ ہے بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں چاہے وہ لوکل ہوں یا ملٹی نیشنل، ڈاکٹروں کو جتنا زیادہ ذاتی فائدہ دیتی ہیں اتنا ہی ڈاکٹر ان کی دوائیاں نسخوں میں لکھ کر انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں اور مریضوں پرمالی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

’بھارت میں جنیرک نام سے لوگ ادویات خریدتے ہیں اور پوری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے اور مریضوں کے پاس اختیار ہوتا ہے وہ جہاں سے چاہیں سسستی ادویات خرید سکتے ہیں۔ اگر حکومت اس پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے یہ درست فیصلہ ہو گا۔‘

نور مہر کا کہنا ہے کہ ’مختلف جان لیوا امراض اور بہت ساری بیماریوں کے علاج کے لیے درکار ہزاروں دوائیوں کی قیمتوں کو فوری طور پر نیچے لایا جا سکتا ہے اگر اس پالیسی کے تحت ڈاکٹروں کو ادویات کے جنیرک نام نسخے میں لکھنے کا پابند بنایا جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان