بھارت کے مالدار لوگ نجی جیٹ طیاروں میں ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے

کرونا وائرس کے بحران کے نتیجے میں فضائی کرائے بڑھ گئے ہیں۔ اس صورت حال میں بھارت کے امیر لوگوں اور مشہور شخصیات نے فرار ہونے کے لیے نجی جیٹ طیاروں کا استعمال شروع کردیا ہے۔

بھارت میں کووڈ 19 وبا کی دوسری تباہ کن لہر جاری ہے۔ ان حالات میں بھارت کے امیر ترین لوگ ملک سے فرار ہونے کے لیے پرائیویٹ جیٹ طیارے کرائے پر لینے کے لیے لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

بھارت میں کرونا (کورونا) وائرس کے بحران کے نتیجے میں فضائی کرائے بڑھ گئے ہیں۔ اس صورت حال میں ملک کے امیر لوگوں اور مشہور شخصیات نے فرار ہونے کے لیے نجی جیٹ طیاروں کا استعمال شروع کردیا ہے۔

بھارت میں کووڈ 19 وبا کی دوسری تباہ کن لہر جاری ہے۔ ان حالات میں بھارت کے امیر ترین لوگ ملک سے فرار ہونے کے لیے پرائیویٹ جیٹ طیارے کرائے پر لینے کے لیے لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب دنیا کے متعدد ملکوں نے بھارت سے پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔

مانا جا رہا ہے کرونا وائرس کی نئی اقسام حالیہ وبا کو ہوا دے رہی ہیں۔ اسی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویش کے باعث پروازوں پر پابندی لگائی گئی ہے جس کے بعد ایسی منازل کے لیے فضائی ٹکٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں، جہاں اب تک مسافروں کو قبول کیا جارہا ہے۔

اخبار ’دا ٹائمز‘ کے مطابق گذشتہ ہفتے برطانیہ جانے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ نو گھنٹے کے سفر کے لیے کم ازکم آٹھ نجی طیارے کرائے پر حاصل کیے گئے۔ بعد میں برطانیہ نے بھارت کو ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کر دیا، جس میں شامل ملکوں کے برطانیہ آنے والے شہریوں کے لیے ہوٹل میں قرنطینہ ضروری ہے۔ اخبار کے مطابق مانا جاتا ہے کہ برطانیہ جانے والے طیاروں کی ہر پرواز پر ایک لاکھ پاؤنڈ تک خرچہ آتا ہے اور آخری طیارہ ریڈ لسٹ کی ڈیڈلائن سے صرف 45 منٹ پہلے برطانیہ پہنچا۔

اس سے پہلے اس مہینے دی انڈپینڈنٹ نے بھارت کے مختلف شہروں سے برطانوی ہوائی اڈوں کے لیے فضائی کمپنیوں جن میں ایئرانڈیا، برٹش ایئرویز، ورجن اٹلانٹک اور وسٹارا شامل ہیں، کے ٹکٹ آپشنز تلاش کیے تھے لیکن کسی روٹ کے لیے ٹکٹ دستیاب نہیں تھا۔ جب ٹکٹوں کی غیرمعمولی طلب کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ورجن اٹلانٹک کے ترجمان نے جواب دیا: ’ہماری پروازوں کی تعداد محدود ہے۔ ہمیں برطانیہ اور بھارت کے درمیان پروازوں کی اجازت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم پروازوں یا نشستوں کی تعداد نہیں بڑھا سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ نے 19 اپریل کو اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کو سفر کے حوالے سے ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل کر رہا ہے، جس کے لیے بھارت کو چار دن کا نوٹس دیا گیا۔ 23 اپریل کو صبح چار بجے کے بعد صرف برطانوی شہری بھارت سے برطانیہ آسکیں گے اوربرطانیہ آمد پر انہیں ہوٹل میں قرنطینہ میں رہنا ہو گا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے کہا تھا کہ برطانیہ میں کووڈ کے 103 ایسے متاثرین سامنے آئے ہیں جن کے جسم میں وائرس کی بھارتی قسم پائی گئی، جس کی بڑی وجہ بھارت سے آنے والے مسافر تھے جبکہ برطانوی وزیراعظم نے دورہ بھارت بھی منسوخ کر دیا تھا۔

دیگر ملک جنہوں نے بھارت سے پروازوں پر پابندی لگائی، ان میں فرانس، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، امریکہ، ہانگ کانگ، سنگاپور، کینیڈا، مالدیپ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

اخبار ’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق بھارت میں پرائیویٹ ایئرچارٹر سروس کے ترجمان نے ہفتے کو کہا ہے کہ بین الاقوامی پروازوں میں دلچسپی ’قطعی طور پر پاگل پن کی حد‘ کو چھو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کل ہماری 12 پروازیں دبئی جا رہی ہیں اور تمام پروازوں کی نشستیں مکمل طور بک ہیں۔‘ انتھرال ایوی ایشن کے ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے صرف آج دبئی کے لیے پرواز کے بارے میں پوچھے گئے 80 سوالات کا جواب دیا ہے۔ ہم نے طلب پوری کرنے کے لیے بیرون ملک سے مزید طیاروں کی درخواست کی ہے۔ ممبئی سے دبئی تک 13 نشستوں والے طیارے کرائے پر لینے کے لیے 27337 اور چھ نشستوں والے طیارے کے لیے 22301 پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔‘

پیر کی صبح بھارت میں کووڈ کے تین لاکھ 52 ہزار نئے کیس سامنے آئے تھے جو مسلسل پانچ روز میں سامنے آنے والے کیسوں کا ایک اورریکارڈ تھا۔ بولی وڈ کے متعدد ستاروں کو بیرون ملک چھٹیاں گزارنے پر آن لائن تنقید کا سامنا ہے کیونکہ ملک ایسے بحران سے گزر رہا ہے، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق عالیہ بھٹ، رنبیرکپور، ڈیشا پٹانی اور ٹائیگر شروف ان اداکاروں میں شامل ہیں جنہیں گذشتہ ویک اینڈ پرمالدیپ میں آرام کرتے دیکھا گیا جبکہ اتوار کو چار اداکاروں کو ممبئی واپس آتے دیکھا گیا۔ ایک صارف نے شروف کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھا: ’وہ ہم (عام لوگوں) سے کہہ رہے ہیں کہ صورت حال کو سمجھیں اور گھر پر رہیں لیکن وہ مالدیپ میں چھٹیاں گزار رہے ہیں!!‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا