ایک شہر جہاں گولہ بجا کر سحری اور افطار کی روایت آج بھی زندہ ہے

ایک زمانے میں اطلاعات ڈھول، بگل، فائرنگ یا دھویں کے ذریعے دی جاتی تھیں۔ اب یہ روایات بڑی حد تک ناپید ہو گئی ہیں لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا کے ضلع ڈی آئی خان میں آج بھی افطاری اور سحری کے وقت گولہ بجانے کی روایت زندہ ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع ڈی آئی خان میں آج بھی افطاری و سحری کے وقت گولہ بجانے کی روایت زندہ ہے (تصاویر: روفان خان)

اس جدید دور میں وقت بتانے والے ہر قسم کے جدید طرز کے آلات موجود ہیں، جن کی وجہ سے پرانی روایات ختم ہوتی جا رہی ہیں۔

ایک زمانے میں اطلاعات ڈھول، بگل، فائرنگ یا دھویں کے ذریعے دی جاتی تھیں۔ اب یہ روایات بڑی حد تک ناپید ہو گئی ہیں لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا کے ضلع ڈی آئی خان میں آج بھی افطاری و سحری کے وقت گولہ بجانے کی روایت زندہ ہے۔

یہاں افطاری کے وقت ایک دو گولے جبکہ سحری کے وقت ایک گولہ بجایا جاتا ہے، جب تک گولہ نہیں بجتا اس وقت تک لوگ افطاری و سحری نہیں کرتے۔ یہ روایت پچھلے ڈیڑھ سو سال سے قائم و دائم چلی آ رہی ہے اور جدید وقت اسے ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

مقامی مسجد کے خطیب حمداللہ عمر نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’گولہ بجانے کی روایت کا آغاز ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے مولانا احمد نے پاکستان بننے سے پہلے کیا تھا، اور آج بھی یہی روایت زندہ ہے، اس کے تقریباً ڈیڑھ سو سال کا عرصہ ہونے کو ہے۔‘

انہوں نے بھی بتایا کہ ’افطار کے وقت بازار میں رش زیادہ ہونے کی وجہ سے افطاری کے وقت دو گولے بجاتے ہیں جبکہ سحری کے وقت فضا صاف اور شور نہیں ہوتا تو ہم ایک گولہ بجاتے ہیں۔ اسی رمضان المبارک کی آمد پر تقریباً چھ سات گولے بجاتے ہیں اور چاند رات جو ہم لوگوں کی عید کی اطلاع دیتے ہیں تو سات گولے سے لے کر دس گولے بجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’پہلے تو اپنی مدد آپ کے تحت گولہ بجانے پر خرچہ کرتے تھے، وقت بدلنے پر مقامی لوگوں نے بھی مدد شروع کی اور اب محکمہ تحصیل میونسپل کمیٹی فنڈ دے رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بارودی مواد مہنگا ہوچکا ہے، اس لیے اس پر تقریباً ایک لاکھ 30 ہزارروپے کا خرچہ آتا ہے۔

ڈی آئی خان میں یہ روایت اس لیے بھی زندہ ہے کہ یہاں مختلف فرقے ہیں اس لیے مقامی لوگ دیگر اعلانات پر یقین نہیں کرتے اور جب تک گولہ نہیں بجایا جاتا اس وقت تک لوگ افطاری و سحری نہیں کرتے۔

سینیئر صحافی جلال مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گولہ بجانے کی آواز تقریباً چار کلو میٹر دور تک سنی جاتی ہے اور لاکھوں پر مشتمل آبادی میں یہ روایت ایک ہی خاندان نے زندہ کر رکھی ہے اور ڈیڑھ سال سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’گولے بجانے کی روایت بھائی چارے اور اتفاق کا درس دیتی ہے اور پیار و محبت کی علامت بھی ہے اس کو ڈی آئی خان کے تمام علمائے کرام کی حمایت حاصل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ایچ ڈی سکالر اور ماہر مضمون حافظ شہاب سورانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جدت کے اس دور میں الارم والی گھڑیوں اور موبائل فونز کے استعمال سے یہ قدیم روایت معدوم ہوتی جا رہی ہے تاہم آج بھی کہیں نہ کہیں رمضان اور عید مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں اسے مختلف رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا دنیا بھر میں ایشیا اور بالخصوص پاکستان میں بھی سحری کے لیے جگانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں، جس کے تحت کہیں ڈھول، دف یا بگل بجا کر لوگوں کو بیدار کیا جاتا ہے، ’پھیری والا آ گیا تے سب نوں جگا گیا، اٹھو ایمان والو سحری دا ویلا آ گیا۔‘

رمضان المبارک میں  کچھ اس طرح کی آوازیں کانوں کو سنائی دیتی ہیں، شہریوں کو سحری کے اوقات میں جگانے والے ڈھنڈورچی یا پھیری والے ڈھول اور کنستر یا ٹین وغیرہ بجانے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ کلام پڑھ کر عرصہ دراز سے روزہ رکھنے والوں کو جگانے کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کو نذرانہ بھی دیتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں اور لکی مروت سمیت دیگر اضلاع میں پگل اور گوگو مشین کا استعمال کیا جاتا ہے اور لوگوں کو سحری و افطاری کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اگر اس کو حکومت نے خاص توجہ دی تو روایت کو تقویت ملے گی اور موجودہ اور آنے والی نسل کو بھائی چارے اور پیار و محبت کا درس ملے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان