تین کاف: کرینا، کرونا اور کلیسا

یہ وہی گرجا گھر ہے کہ جب پاکستان میں 2005 کا قیامت خیز زلزلہ آیا یہ بھی متحرک اور دست بہ دُعا ہوا تھا کہ آدم کی اولاد کی حفاظت کر اور ان کے مال واملاک کو بچا لے۔

کلیسا کی وہ سر وس جس میں مجھ پر بھی رقت طاری ہوئی تھی(تصویر: مصنف)

میری چیریٹی شاپ (کرینا) اور کلیسا دونوں ایکٹن ہائی سٹریٹ پر ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور اختتام ہفتہ، میں ان دونوں جگہوں پر جاتا ہوں۔

صبح دس سے دوپہر ایک بجے تک چیریٹی شاپ پر پھر سہ پہر میں مسجد کے آس پاس مسلم برادری سے ملاقاتوں میں مختلف موضوعات پر باتوں اور پرسان حال میں وقت گزرتا ہے۔ علاقے اور مقامی آبادی کی بھلائی لیے کیا ہو رہا ہے اس پر بات ہوتی ہے اور ہم کتنے آگاہ ہیں اور مزید کیا ہونا چاہیے۔ پھر شام سات بجے تک میں مقامی کلیسا میں ہوتا ہوں، جہاں میں تمام ترتوجہ اور انہماک کے ساتھ  اس کی ’سروس‘ میں شریک ہوتا ہوں۔ یہ تقریباً ایک گھنٹے میں نمٹ جاتی ہے۔

چیریٹی شاپ، کرینا میں نئے پرانے، تقریباً نئے اور کم استعمال شدہ، تحفوں میں ملے بچوں اور بڑوں کے کپڑے، کھلونے، میک اپ اور ڈیکوریشن کا سامان، عروسی لباس، جوتے اور گھریلو استعمال کی کراکری، پریشر ککر، ڈائنگ سیٹس، فرنیچر، بھانت بھانت کی چیزیں، سیکنڈ ہینڈ کمپیوٹرز، موبائل فونز، ڈیجیٹل اور بورڈ گیمز وغیرہ سے لے کر وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو آپ سوچ سکتے ہیں لیکن ’فل پرائس‘ پر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔

کرینا میں زیادہ تر لوگ میری طرح رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین ہیں کہ جن میں مائیں، نانیاں دادیاں اور سنگل پیرنٹس بھی شامل ہیں۔ ان کا کام عطیہ کیے گئے سامان کو چھانٹنا، لانڈری اور ڈرائی کلینگ کے لیے بھیجنا، واپسی پر ان کو مقررہ جگہوں پر ترتیب سے رکھنا، تزئین و آرائش کا دھیان رکھنا ہے کہ کیا کہاں پر لگے تو بہتر ہے۔

دکان چونکہ چرچ کی ملکیت ہے لہذا کرایہ دینے کا سوال نہیں۔ لانڈری ڈرائی کلینگ اور پروفیشنل ’سینی ٹائزنگ‘ بھی مفت ہو جاتی ہے اور کپڑوں اور دیگر سامان کے عطیات بھی ہمیشہ ’بن لائنرز‘ یا کارڈ بورڈ باس میں بند مل جاتے ہیں، لہذا یہ چیریٹی خوب پھل پھول رہی ہے اورضرورت مند کمیونٹی شکر گزار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس چیریٹی شاپ میں ابتدا میں میری مصروفیات خاصی دلچسپ نوعیت کی تھیں، اب نہیں ہیں۔ پہلے پہل میں حسب معمول سوٹ بوٹ پہنے، آفٹر شیو اور ٹرینڈی ٹائی لگائے آتا۔ مارننگ کافی اور چند بسکٹس کا لائٹ بریک فاسٹ لیے اپنی مقررہ ڈیوٹیز کی فہرست سنبھالے کام میں لگ جاتا تھا۔

لیکن بھلا ہو ان ’نوزی خواتین‘ کا جنہوں نے میرا نام پتہ چیریٹی مینیجر سے یاری دوستی میں پوچھ لینے کے بعد مجھے ’سوشل میڈیا‘ پر ڈھونڈ نکالا اور پھر کوئی راز نہ رہاـ

آج بھی اختتام ہفتہ جب میں اپنی ’ڈیوٹی‘ پر آتا ہوں تو ’بظاہر ٹی یا کافی بریک‘ میں مجھے بتا دیا جاتا ہے کہ آج جوزفین تم سے یہ پوچھنا چاہے گی، پیملا کا سوال یہ ہوگا اور مشعیل کا تو تم اچھی طرح سے جانتے ہی ہو وہ بھی اپنا ہوم ورک کرکے آئی ہے۔ اور تو اور وہ بذات خود ایک کوچنگ سینٹر کھولنا چاہ رہی ہے جہاں وہ ’او لیول اور اے لیول‘ کے طلبہ کی تعلیم کا بندوبست کرے گی اور تمہیں معاوضے کے ساتھ لیکچرار رکھنے کا اپنا کام پورا کر چکی ہے۔

آئیے ہائی سٹریٹ کی سڑک پار کیجیے اور چلیے میرے ساتھ ساتھ، جہاں میں لے جا رہا ہوں وہ چرچ ہے اور وہاں دل و دماغ کھل جائیں گے اور ممکن ہے آپ کے  بہت سے سوالوں کے جوابات میں تو شاید نہ دے سکوں مگر وہ ممکنہ جوابات خود بخود آپ کے دل سے نکلتے چلے آئیں گے۔

تو، یہ ہے میرا چرچ اور اگر ’ڈیوٹی ٹرپ یا کسی کورس‘ پر نہ گیا ہوا ہوں تو اس چرچ کی سروس ضرور اٹینڈ کرتا ہوں۔

یہ وہی گرجا گھر ہے جس کے باہر لگے نوٹس بورڈ پر عمومی معلومات، چرچ سروس ٹائمنگ، آنے والے ’بیپٹیزمز‘ اور دیگر تقریبات کی تفصیلات کے علاوہ رمضان اس کے روضوں اور آنے والی عید کا ذکر اور خبرنامہ بھی لگا ہے۔ (کاپی آپ مفت چرچ کے اندر آ کر لے سکتے ہیں) کہ یہ سب کچھ اسی مہینے کیوں ہو رہا ہے اور مسلمانوں کے نزدیک اس مہینے کی اہمیت اور فضیلت کیا ہے۔

یہ وہی گرجا گھر ہے کہ جب پاکستان میں کیا پہاڑ اور کیا بلند و بالا عمارات سب کچھ جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا 2005 کا قیامت خیز زلزلہ آیا یا پھر جب سب کچھ بہا کر لے جانے والا جان لیوا سیلاب آیا اس وقت بھی دیگر کلیساؤں کی طرح یہ کلیسا بھی متحرک اور دست بہ دُعا ہوا تھا کہ ’یا رب یسوع مسیح کے صدقے، آدم کی اولاد کی حفاظت کر اور ان کے مال واملاک کو بچا لے۔‘

اور ایک بار پھر اسی کلیسا میں اس اختتام ہفتہ اپنی سپیشل سروس میں ’کرونا‘ سے بچاؤ اورتحفظ کے لیے ان الفاظ میں بھارت اور پاکستان، ان کے عوام اور ان کے مال و متاع کے لیے دعائیں مانگی گئیں کہ ’او لارڈ گاڈ، مرسی آن اَس، پروٹیکٹ اَس فرام ڈسٹرکشن، فرام دِس کرونا وائرس، سپیشلی فور پیپل آف انڈیا، ہو آر فیسڈ ود دا ورسٹ ایورڈزاسٹر، او لارڈ گاڈ، سیو اَس، ہیو مرسی آن اَس۔‘

ایسی دعاؤں کی گونج میں فادر جورج کے خطاب کو انتہائی انہماک سے سننے والے شرکا ’اے مین اے مین (آمین، آمین)‘ کی صداؤں کے ساتھ ان دعاؤں میں دم پھونک رہے تھے۔ ایک دل گرفت اور روح پرور منظر تھا، مشترکہ انسانی بے بسی کا خیال آ رہا تھا اور فادر جورج کا گڑ گڑا کر دعا کرنے کا انداز، ان کی آواز میں آئی کانپ اسی انسانی بےبسی اور باہمی بھائی چارے کو جگا رہی تھی۔

آفاقی محبت جیسے کلیسا میں اتر آنے کے بعد دل میں گھر کیے جا رہی تھی۔ میری آنکھیں بھر آئیں۔ فادر جورج نے جب دل ہی دل میں اپنے پیاروں کو یاد کرنے کی درخواست کے ساتھ ’لیٹس پرے‘ کہہ کر خاموشی اختیار کی تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں واقعتاً گریبان میں جھانکنے لگا اور من ہی من میں پوچھنے لگا کہ ہم، آخر میں ہیں کیا؟ اگر کرونا نے ہمیں بھی لپیٹ میں لے لیا تو ہمارا اور بچوں کا کیا ہوگا؟

انسانیت ساز آفاقی محبت جگانے والی کلیسا کی یہ سروس جس میں مجھ پر بھی رقت طاری ہوئی تھی اور جس سے میں انسانیت کے نام پر ایک جھرجھری لے کر اٹھا تھا شاید کبھی نہ بھول پاؤں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ