داتا دربار دھماکے میں کون ملوث؟

یکم اپریل کو ایک چھاپے کے دوران گرفتار دو ملزمان نے دوران تفتیش پولیس کو ممکنہ دہشت گردی کے بارے میں بتایا تھا۔

8 مئی کو لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے باہر کھڑی ایلیٹ فورس کی ایک وین کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 10 سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ فائل تصویر: اے ایف پی

سکیورٹی ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے مبینہ تعلق رکھنے والے شہزاد نامی ملزم کی عدم گرفتاری معمہ بن چکی ہے۔ وہ یکم اپریل کو لاہور کے علاقے گجر پورہ میں پولیس چھاپے کے دوران فرار ہوگئے تھے۔ شہزاد پر داتا دربار پر ہونے والے حملے میں سہولت کاری کا شبہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

8 مئی کو لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے باہر کھڑی ایلیٹ فورس کی ایک وین کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 10 سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹس ہیں کہ لاہور میں ماہِ رمضان کے دوران ممکنہ حملے کا الرٹ کافی دن پہلے سے گردش کر رہا تھا۔

اس الرٹ کے تانے بانے سکیورٹی اداروں کی جانب سے یکم اپریل کو لاہور کے علاقے گجر پورہ میں خفیہ اطلاع پر ایک مکان پر چھاپے سے ملتے ہیں۔ یہ وہی چھاپہ تھا جس کے دوران شہزاد فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوئے۔ البتہ شہزاد کے دو ساتھیوں امجد فردوسی اور شاہد کو حراست میں لے لیا گیا، جو بھائی ہیں۔ ان کے قبضے سے خود کش جیکٹ اور دستی بم بھی برآمد ہوئے تھے۔

پولیس حکام کو اُس وقت حیرانی ہوئی جب پتہ چلا کہ حراست میں لیے گئے امجد فردوسی کا تعلق پولیس سے ہے اور وہ تھانہ لوئر مال میں فرنٹ ڈیسک ملازم ہیں۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق دوران تفتیش پولیس ملازم امجد فردوسی نے بتایا کہ وہ شہزاد کے کہنے پر کمپیوٹر نیٹ ورکنگ میں مدد فراہم کر رہے تھے۔ یہ نیٹ ورکنگ خود کش جیکٹس اور انٹرنیٹ پر خود کش حملوں کی لوکیشن کو مانیٹر کرنے میں مدد دیتی تھی۔

امجد فردوسی نے دوران تفتیش یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کی ذمہ داریوں میں خود کش جیکٹس تیار کرنا، مخصوص موبائل ایپلیکشن سے خودکش حملہ آور سے رابطے میں رہنا اور حملے کے مقام تک خودکش جیکٹ پہنچانا شامل تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے بھائی شاہد بھی شہزاد کو قیام اور دیگر ساتھیوں سے رابطوں میں مدد دیتے تھے۔

حراست میں لیے گئے دونوں بھائیوں نے سکیورٹی اداروں کو یہ بھی بتایا تھا کہ ممکنہ دہشت گردی کا ٹارگٹ پولیس ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہزاد کے مفرور ہونے پر سکیورٹی اداروں کو خدشہ تھا کہ چند دن میں دہشت گردی کی کارروائی متوقع ہے، اسی لیے لاہور میں متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔

داتا دربار حملے کی تحقیقات

دوسری جانب سکیورٹی اداروں کی جانب سے لاہور میں ہونے والے دھماکے کے بعد صوبے بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک تک پہنچنے اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی آگئی ہے۔

انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے جمعرات کے روز بہاولپور سے مبینہ دہشت گردی کے شبہ میں چار افراد کو حراست میں لیا اور ان سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور خود کش جیکٹس برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے داتا دربار دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ خود کش حملہ آور کو جیکٹ فراہم کرنے والا سہولت کار بھی کہیں شہزاد تو نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ فوٹیج میں کیمروں نے خودکش حملہ آور کو ایک نامعلوم شخص کی جانب سے ساتھ لانے اور پولیس وین کی طرف بھیجنے کا منظر محفوظ کر لیا لیکن اس کی شناخت واضح نہیں ہوئی، تاہم اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔

دوسری جانب ڈی آئی جی انویسٹی گیشن انعام وحید نے بتایا کہ داتا دربار دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ہر پہلو سے جائزہ لیا جا رہا ہے اور جلد ہی اصل ذمہ داروں تک پہنچ جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کافی حد تک پیش رفت ہوچکی ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج اور خود کش حملہ آور کے جسمانی اعضاء کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

انعام وحید کے مطابق ماہِ رمضان میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں تاہم سکیورٹی ادارے پوری طرح دہشت گردوں کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پولیس اہلکاروں کی سکریننگ

سانحہ ساہیوال کے بعد سوا ماہ پہلے ایک اور پولیس اہلکار کے دہشت گردوں سے تعلق ہونے پر سابق انسپکٹر جنرل  (آئی جی) پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی نے صوبے کے تمام پولیس اہلکاروں کی چھان بین اور ان کے موبائل ڈیٹا سے رابطوں کی اندرونی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق تمام پولیس اہلکاروں کے کردار اور ان کے تعلقات کی خفیہ تحقیقات جاری ہیں، تاہم ابھی تک کسی اور پولیس اہلکار کے کسی کالعدم تنظیم سے رابطوں کے شواہد نہیں ملے۔

سانحہ ساہیوال میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)کی فائرنگ سے ہلاک مبینہ دہشت گرد ذیشان کا بھائی ارسلان بھی ڈولفن فورس کا ملازم نکلا تھا، جسے نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا جبکہ ذیشان کی بیوی بھی پولیس حراست میں ہے۔

اس واقعے میں ماری جانے والی بے گناہ فیملی کے ورثا کو حکومت نے مالی امداد دے دی لیکن ذیشان کے دہشت گرد ہونے سے متعلق سکیورٹی ادارے اپنے موقف پر قائم ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان