لاک ڈاؤن نے پاکستانی خواتین کی عید شاپنگ کو کیسے متاثر کیا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین کے ساتھ بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ لاک ڈاؤن اور کرونا وبا کے دوران انہوں نے عید کی شاپنگ کس طرح کی ہے اور ان کی عید کی شاپنگ کتنی حد تک متاثر ہوئی ہے۔

کرونا (کورونا) وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے طور پر پاکستان بھر میں آٹھ سے 16 مئی تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً ہر  طبقہ متاثر ہوا ہے، تاہم طبی ماہرین کے مطابق کرونا سے بچنے کے لیے ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔

عید الفطر کی بھی آمد آمد ہے اور اس مذہبی تہوار کو منانے کے لیے ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق شاپنگ کرتا ہے، جس میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین کے ساتھ بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ لاک ڈاؤن اور کرونا وبا کے دوران انہوں نے عید کی شاپنگ کس طرح کی ہے اور ان کی عید کی شاپنگ کتنی حد تک متاثر ہوئی ہے۔

آمنہ خان کا تعلق پشاور سے ہے اور وہ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ایک  طرف جہاں انہوں نے عید کے لیے شاپنگ نہیں کی ہے، وہیں پارلر بند ہونے کی وجہ سے آمنہ نے کرونا کے آغاز سے لے کر اب تک خود بناؤ سنگار کرنے اور میک اپ کے نئے طریقے بھی سیکھ لیے ہیں۔

آمنہ نے بتایا: 'جب سے کرونا وبا آئی ہے، یہ دوسری عید ہے کہ میں باہر جانے سے اجتناب کرتی ہوں۔ وبا کے دوران دونوں عیدوں کے لیے میں نے باہر جاکر شاپنگ نہیں کی ہے اور زیادہ تر کوشش کی کہ چیزیں آن لائن آرڈر کروں۔'

سیلف گرومنگ کے حوالے سے آمنہ نے بتایا کہ اگر خواتین خود بناؤ سنگار کے طریقے بھی سیکھ لیں تو اس  سے ان کے اخراجات میں بھی کمی آئی گی اور وہ اپنی پسند کے مطابق میک اپ بھی کرسکیں گی۔

مہوش بھٹی کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ایک صحافی ہیں۔مہوش ٹوئٹر پر 'ماہو بلی' کے نام سے طنزیہ ٹویٹ کرنے پر بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'اس سال عید پر کرونا وبا کی وجہ سے نہ میں کہیں جا رہی ہوں اور نہ کسی کو اپنے گھر  آنے دوں گی اور یہی وجہ ہے کہ میں نے عید کے لیے کپڑے بھی نہیں خریدے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: 'کروبا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کپڑوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ پہلے جو کپڑے پانچ ہزار روپے میں مل جاتے تھے، اب وہ 10 ہزار روپے میں دستیاب ہیں۔ اب اگر دس ہزار کے کپڑے بھی خریدیں اور بندے کو کہیں جانا بھی نہ ہوں کہ کپڑے خریدنے کا کیا فائدہ ہوگا۔'

تاہم مہوش نے بتایا کہ 'میرے ارد گرد موجود خواتین میں ایک ٹرینڈ یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر نے آن لائن خریداری کی ہے اور  میں سمجھتی ہوں کہ اگر کسی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے تو وبا سے بچنے کے لیے ان کو آن لائن ہی  چیزیں منگوانی چاہییں۔'

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مارچ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 46 فیصد آبادی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولیت موجود ہے، جس میں زیادہ تر صارفین شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کی بات کریں تو وہاں پر زیادہ تر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔

مہوش بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ آن لائن خریداری کا رجحان اچھا ہے، تاہم وہ خواتین جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں اور انہوں نے مجبوراً مارکیٹ میں جا کر عید کے لیے شاپنگ کی ہوگی، انہیں برا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے انہوں نے خود اپنے لیے نہیں لیکن بچوں کے لیے عید کی شاپنگ کی ہو۔

ثانیہ زبیر کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب شاپنگ مالز چھ بجے تک کھلے تھے تو دکانداروں نے اشیا کی نے من مانی قیمتیں وصول کیں۔

ثانیہ نے بتایا: 'چھ بجے تک مالز بند ہونے کی وجہ سے پسند کی چیز مناسب دام میں خریدنے کے لیے وقت نہیں ملتا تھا، یہی وجہ تھی کہ دو تین بار شاپنگ کے لیے جانا پڑتا تھا کیونکہ وقت کم تھا  اور مرضی کی چیز خریدنے میں وقت زیادہ لگتا ہے۔'

تاہم ثانیہ نے بتایا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ عید کی شاپنگ مکمل کریں اور اس سال بھی عید  کی خوشیاں منائیں۔

سحر خان کا تعلق بھی پشاور سے ہے اور انہوں نے بھی زیادہ تر آن لائن ہی خریداری کی ہے۔ سحر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ماہرین نے جس طرح بتایا  ہے کہ کرونا کی تیسری لہر بہت خطرناک ہے تو میں نے تمام چیزیں آن لائن آرڈر کر کے خریدیں ہیں۔'

تاہم سحر کو اس بات نے پریشان ضرور کیا  کہ جو چیز ویب سائٹ پر دکھائی جاتی ہے، آن لائن آرڈر کے بعد وہ نہیں ملتی اور لاک ڈاؤن اور شاپنگ مالز جلدی بند ہونے کی ایک سب سے بڑی خامی بھی ان کی نظر میں یہی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین