غزہ کا المیہ

فلسطینیوں کے پاس حکومت ہے نہ کوئی ادارہ ہے، کوئی فوج ہے اور نہ طاقتور ملک کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار ہیں۔ وہ ایک بڑی طاقت سے لڑیں تو کیسے جب ان کے لیے اب اپنی زمین بھی تنگ کر دی گئی ہے۔

(امجد رسمی، بشکریہ الشرق الاوسط)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


فلسطین میں جاری اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی بے بسی دیکھ کر اگرچہ مسلمان قیادت کی بےحسی پر غصہ حق بجانب ہے لیکن ساتھ ہی یہ ادراک کرنا بھی لازمی ہے کہ اسرائیل کی پشت پر وہ سب عالمی طاقتیں ہیں جو فلسطین میں یہودی مملکت قائم کرنے کے صدیوں پرانے اپنے منصوبے پر کاربند رہی ہیں۔

کسی بھی مسلم ملک کی فوجی مداخلت سے اسرائیل کی اس خواہش کو پورا کرنا ہوگا جو وہ مسلم مملکتوں خاص طور پر ایران یا پاکستان کے خلاف اپنی جارحیت کے لیے جواز بنا سکتا ہے۔

عالمی طاقتوں نے بھی معصوم بچوں کی چیخ و پکار سنی، ماؤں کو چھاتی پیٹتے دیکھا، نوجوانوں کو ملبے تلے دم گھٹتے دیکھا اور طبی عملے کی ہسپتالوں پر حملے نہ کرنے کی اپیلیں بھی سنیں۔ فرق یہ ہے کہ ان طاقتوں نے اس بربریت کو اسرائیل کے دفاع سے تعبیر کیا جبکہ عام لوگوں نے اس کو جارحیت قرار دے کر دنیا کی سڑکوں پر ماتم کیا۔ اس پر ستم یہ کہ مسلم لیڈرشپ نے فلسطینیوں کے حق میں دعا کرنے کے بیانات جاری کیے۔

بقول ایک فلسطینی استاد ہانی ابراہیم: ’یہ مسئلہ فلسطین کے پچاس لاکھ افراد کا نہیں بلکہ پونے دو ارب مسلمانوں کا ہے جن کا مقابلہ محض 65 لاکھ اسرائیلیوں سے نہیں بلکہ چھ ارب غیر مسلم آبادی سے ہے۔ ان کی ڈور مغربی ملکوں کے ہاتھوں میں ہے اور ان کا مقصد مسلمانوں کو توڑنا، منقسم کرنا اور انتشار میں مصروف رکھنا ہے۔‘

ہم جیسے تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے سیدھے سادھے لوگ ہمیشہ مغربی ملکوں کے اس جھانسے میں آ جاتے ہیں کہ ان ممالک میں مذہب کی آزادی، جمہوریت یا حقوق انسانی کی پاسداری ہوتی ہے جیسا کہ یہ ہمیشہ دم بھرتے رہتے ہیں اور دم بھرنے کے لیے انہوں نے ادارے بھی قائم کر دیئے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان اداروں یا پاسداری کی تشریح اس وقت بدل جاتی ہے جب بات مسلمانوں کے حقوق کی ہوتی ہے۔

معروف مورخ آرنلڈ ٹوین بی نے کہا تھا کہ ’فلسطین ۔۔۔ پوری دنیا کا المیہ ہے۔ کاش انہوں نے یہ بھی کہا ہوتا کہ اس المیے کو دنیا کے نقشے پر لانے میں جہاں ان کے ہم وطنوں کا خاصا کردار رہا ہے وہیں اس المیے کو حل کرنے کی طاقت بھی وہی رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ فلسطین کو مذہب کی عینک کی بجائے انسانیت کی عینک سے دیکھتے۔‘

فلسطین کا مسئلہ ہی نہ ہوتا اگر وہ مسلمان نہ ہوتے۔

یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف کرنا ضروری بنتا ہے۔

فلسطین کی کڑی دولت عثمانیہ سے ملتی ہے جس کو توڑنے اور ختم کرنے میں ساری عالمی طاقتیں متحد ہوگئیں تھیں۔

فرانسیسی کمانڈر نیپولین بوناپارٹ نے جب ایکرا پر حملہ کیا اور شکست پائی تو اس نے اس کا بدلہ لینے کے لیے 1799 میں ایک خط لکھا جس میں دنیا کے تمام یہودیوں کو فلسطین میں آ کر مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کی دعوت دی تھی۔

نیپولین کے اس خط کے 40 سال بعد برطانیہ نے یورپی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی مہم شروع کی۔ یہ پہلا مرحلہ تھا جب تین ہزار سے زائد یورپی یہودی فلسطین میں داخل ہوئے اور فلسطینیوں مشکل دن شروع ہوگئے۔

مشہور یہودی تاجر روتھچایلڈ نے پہلی یہودی بستی قائم کرنے کے لیے اپنی جیب سے چار کروڑ سے زائد فرانکس خرچ کیے۔ اس کے تین سال بعد یعنی 1885 میں ناتھن برم بام نے یورپی ملکوں کی حمایت سے فلسطین میں یہودی مملکت قائم کرنے کا باظابطہ اعلان کیا۔

دولت عثمانیہ کی دیواریں پہلے ہی اندرونی سازشوں اور قتل و غارت گری سے بھی کمزور ہوتی جا رہی تھیں لہذا فلسطینیوں کی زمینیں پاؤں کے نیچے کھسکتی گئی۔

فلسطینی مسلمانوں کی ہجرت انہیں بےگھر کرنے یا جلاوطنی سے روکنے کی کسی نے جرت نہیں کی۔ بیلفور ڈیکلیریشن کے بعد 1948 میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو اپنے وطن سے بےدخل کر کے پناہ گزیں بننے پر مجبور کر دیا گیا جو آج تک واپسی کا راستہ تلاش نہیں کر پا رہے ہیں۔

اس وقت 60 لاکھ سے زائد فلسطینی دیار غیر میں رہتے ہیں۔ ان میں بیشتر اردن اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں ہجرت کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ 1967 میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان چھ روزہ جنگ نے اس خطے کی ہیت ہی بدل ڈالی۔

جب بیلفور ڈیکلریشن کے تحت اسرائیلی مملکت کے قیام کے بعد اس کو اقوام متحدہ کی تحویل میں دیا گیا تو ساتھ ہی برطانیہ نے اپنے ادارے، سازوسامان اور اسلحہ یہودیوں کے حوالے کر دیا جبکہ فلسطینی بے یارو مددگار تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں نے یہودی مملکت کو بنیادی ڈھانچہ اور اسلحہ فراہم کر کے اتنا خودکفیل بنایا کہ وہ چھ روز میں عرب ملکوں کو ہرا کر ان کی زمینیں بھی ہڑپ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اپنے وجود کے چند برسوں کے بعد ہی اسرائیل کا نہ صرف ترقی یافتہ ملک بلکہ جوہری طاقتوں کی صف میں شمار ہونے لگا۔

مغربی طاقتوں نے اسرائیل کے جوہری پروگرام پر کبھی بات تک نہیں کی مگر اسلامی ملکوں کے جوہری ہتھیار بنانے کے شک میں عراق سے لے کر شام تک ان کو زمین بوس کرنے کی مہم پر گامزن ہے۔

مسلمانوں کی بدقسمتی ان کی غیرموثر اور غیرمنتخب قیادت ہے۔ کاش وہ فلسطینیوں سے کھل کر اظہار یکجہتی کرتے یا کم از کم ان کی دفاعی طور پر امداد کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 57 مسلم ملکوں کا اتحاد او آئی سی مذمتی بیان کے سوا کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔

اتحاد میں شامل مسلم ممالک مغربی ملکوں کے ہتھیاروں کے بڑے خریدار رہے ہیں۔ جو ہتھیار وہ خریدتے ہیں وہ امریکہ اور یورپ میں اسرائیل کی مدد سے تیار ہوتے ہیں۔

مغربی یا مسلمان ملکوں کی منڈیاں یا بازار اسرائیلی اشیا سے بھرے پڑے ہیں جس کا چند فیصد حصہ اسرائیل کے دفاعی منصوبے کے لیے وقف ہوتا ہے اور اسی سے ہتھیار بنا کر فلسطینیوں پر آزمائے جاتے رہے ہیں۔

فلسطینیوں کے پاس حکومت ہے نہ کوئی ادارہ ہے، کوئی فوج ہے اور نہ طاقتور ملک کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار ہیں۔ وہ ایک بڑی طاقت سے لڑیں تو کیسے جب ان کے لیے اب اپنی زمین بھی تنگ کر دی گئی ہے۔

غزہ میں خیراتی ادارے سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے سچ ہی کہا تھا کہ ’اسرائیل کے پاس جوہری بم ہے وہ کیوں نہ اس کا استعمال کر کے فلسطینیوں کو ایک ہی بار ختم کرتا ہے تاکہ اس کو زمین بھی ملے اور مسلم حکمرانوں کو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑے کہ وہ فلسطینیوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ